.

.
تازہ ترین
کام جاری ہے...

جمہوریت کے جمورے

جمعرات, دسمبر 26, 2013

فاروق احمد ( تجاہل عارفانہ)
بچپن میں ایک کہانی سنی تھی۔ آپ بھی ذرا سی سن لیں۔ دور بہت دور جنگل کے کنارے ایک بکری کا گھر تھا۔ بکری کے دو بچے تھے۔ ایک دن بھیڑئے کی نظر بکری کے بچوں پر پڑی اوراس کی نیت خراب ہو گئی۔ مشکل یہ تھی کہ بکری کہیں جانے سے پہلے گھر کا دروازہ مقفل کردیتی تھی۔ بھیڑیا وہاں تک آتا اور خالی ہاتھ چلا جاتا۔ اس نے سوچا ، بکری کہ ماں کب تک خیر منائے گی اور اس نے وہاں آنا جانا جاری رکھا یہاں تک کہ ایک دن بکری دروازہ مقفل کرنا بھول گئی ،بھیڑیا کامیاب ہوگیااور بکری بچوں سے محروم ہو گئی۔بکری کے بچوں کو کھانے سے پہلے بھیڑیے نے اتنا ضرور کیا کہ بچوں کو اپنی دفاع میں بولنے اور منت سماجت کرنے کا پورا موقع دیا۔ رہی بات انجام کی تو بھیڑئے کو کھانا تھا سو اس نے کھا لیا

مجھے لگتا ہے بھیڑیا ہو شیار نہیں تھا،یہ اور بات ہے کہ اس کا بھیڑیا ہونا ہی بکریوں کے لئے قیامت سے کم نہیں ۔ اگر بھیڑیا ہو شیار ہو تا تو پہلے بکری کو اپنے دام میں پھنساتا پھر اس کے بچوں کو بھی کھا لیتا اور بکری کو احساس زیاں بھی نہیں ہوتا۔ہوشیار تو انسان ہوتا ہے تبھی ہر روز نئے جال بنتا اور اپنا شکار ایسے کرتا ہے کہ شکار کو بھی پتہ نہیں چلتا کہ اس کا شکار ہو چکاہے۔ برسوں پہلے اسی طرح کا ایک جال سرمایہ داروں نے تیار کیا تھا۔ یہ جال ایسا تھا کہ اس میں پھنس کر شکار پہلے جمورا بنتا تھا اور پھر استاد کا ہرحکم جمورا بجا لاتا تھا۔ اس جال کا نام تھا جموریت۔دھیرے دھیرے جموریت کے اس جال میں پوری دنیا پھنستی چلی گئی۔ اس طرح جموروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گیا۔اب استادکے حکم پر جمورے ناچتے اور جموروں کی ہر تال پر تالیاں بجتیں، کبھی کبھار تو پگڑیاں بھی اچھلنے لگتیں۔کبھی کبھی جموریت کے دام میں گرفتار تماش بیں جموروں کی کسی حرکت پر ناراض بھی ہوتے لیکن اگلے ہی پل کچھ لوگوں کو تالیاں لگاتا دیکھ وہ بھی تالیاں بجانے لگتے۔ 

جموریت کا جال اتنا دلچسپ نکلا کہ شیرائیت پسندبھی اس میں پھنسنے لگے اورحال یہ ہو گیا کہ شیرائیت کے بہت سے علمبردار جموریت مین پھنس کر جمورے بن گئے اور پھر جموریت کا ننگا ناچ اس طرح ہوا کہ جموروں کی سلطنتیں لٹ گئیں لیکن جمورے استاد کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے۔

اب استاد بوڑھا ہو رہا ہے۔ اسے بیٹھے بٹھائے شکار ملنا چاہئے۔ وہ جلد ہی جموروں کی تعداد میںاور اضافہ کرنے کی فراق میں ہے،تاکہ اس کی سپرمیسی برقرار رہے۔ لھٰذا اس کا سب سے پہلا نشانہ شیرائیت پسند ہیں ، جن کا عالم وسط پر بول بالا ہےاور جن کے پاس قدرتی ذخائر کا کوئی شمار نہیں ہے۔یہ اور بات ہے کہ انہوں نے خود بھی شیرائیت کو ترک کر رکھا ہے لیکن آج بھی ان میں چند ایک خود کو خلیفہ ہی کہلانا پسند کرتے ہیں۔ استاد جموروں میں خوف و ہراس پیدا کرنے اور اپنے مطابق جموروں کی جموریت قائم کرنے میں لگ گیا ہے۔ کچھ جموروں سے تماش بیں رعایا بھی ناخوش تھی لھٰذا کام آسان ہو گیا ہے۔کچھ تماش بینوں کی شکل میں استاد کے گرگوں نے آواز اٹھاکر سب کو جموروں کے خلاف کر دیا ہے اب جموروں کے خلاف لہر چل پڑی ہے۔استاد کے سامنے ایک مشکل ہے کہ اگلا جمورا کون ہو ۔ ممکن ہے حالات اپنے خلاف جاتا دیکھ استاد ایک چال اور چلیں یعنی مسئلے کو کرید کر یونہی بحران بنائے رکھیں کیوں کہ اس میں بھی تواستادی انہیں کی چلےگی۔ 
استادکا رنگ ڈھنگ چالاک انسانی بھیڑئے کی ہے۔ شکار بھی کرنا ہے لیکن جواز فراہم کرنے کے ساتھ۔
 بہ شکریہ :   ہفت روزہ سنڈے انڈین
کالم نگار ڈی ڈی نیوز کے ادارتی شعبے سے وابستہ ہیں 

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔