.

.
تازہ ترین
کام جاری ہے...

آل انڈیا یونانی طبّی کانگریس (یوتھ ونگ) کے زیراہتمام خصوصی لیکچر

اتوار, جنوری 12, 2014

نئی دہلی ۔ آل انڈیا یونانی طبّی کانگریس (یوتھ ونگ) کے زیراہتمام منعقدہ خصوصی لیکچر بعنوان ”طب یونانی کا مستقبل اور ہماری ذمہ داریاں“ جامعہ ہمدرد کے شعبہ معالجات سے وابستہ ڈاکٹر محمد عمر جہانگیر نے پیش کیا۔ انہوں نے مرکزی حکومت کے ذریعہ اٹھائے گئے اقدام کی تعریف کرتے ہوئے بتایا کہ محکمہ آیوش میں موجودہ ایڈوائزر یونانی پروفیسر رئیس الرحمن صاحب کی سربراہی میں آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف یونانی میڈیکل سائنسز کی منظوری قابل ستائش کارنامہ ہے۔ اسی طرح ہندوستان- ساﺅتھ افریقہ کے اشتراک سے کیپٹاﺅن یونیورسٹی میں یونانی بینچ کا قیام اور اس کی کامیابی کے لےے آل انڈیا یونانی طبّی کانگریس کے قومی صدر پروفیسر مشتاق احمد کا دوبارہ تقرر یقینا ہمارے روشن مستقبل کا عکاس ہے اور دنیا بھر میں متبادل میڈیسن کے طور پر یونانی ہربل میڈیسن کی ڈیمانڈ بہت تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔ خاص طور سے امریکہ اور یوروپ میں اس کی مقبولیت سے ہمارے حوصلے بلند ہےں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ بڑے پیمانے پر ایم ڈی یونانی کی تعداد بڑھانے کی غرض سے سنٹرل کونسل آف انڈین میڈیسن کے صدر ڈاکٹر راشداللہ خان کی سربراہی میں جو اقدام کےے جارہے ہےں وہ بھی قابل ستائش ہےں۔ ملک کے مختلف طبیہ کالجوں کے علاوہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف یونانی میڈیسن بنگلور میں ایم ڈی یونانی کی سیٹیں بڑھائی جاچکی ہےں۔ انہوں نے کہا کہ جدید تقاضوں کے تحت سنٹرل کونسل آف انڈین میڈیسن میں نافذ نصاب میں تبدیلی لائی جارہی ہے، وہ بھی خوش آئند ہے کیونکہ دنیا میں ہورہی تیزی سے تبدیلی کے ساتھ اپنے آپ کو متحرک کرنا کامیابی کے لےے ضروری ہے۔ اس لےے ہمیں جدید تقاضوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے نصاب کو ترتیب دیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سی سی آریو ایم کی بہتر کارکردگی بھی ہماری کامیابی کی ضمانت ہے کیونکہ تحقیقی نتائج پر ہی ہماری عزت و وقار کا انحصار ہے۔ آل انڈیا یونانی طبّی کانگریس کے سکریٹری جنرل ڈاکٹر سیّد احمد خاں نے کہا کہ طب یونانی سے وابستہ تمام تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بنیادی طور پر دواسازی کے مسائل پر خصوصی توجہ دیں کیونکہ بہت سی دوائیں ایسی ہےں جن کا استعمال ممنوع ہوچکا ہے اور ان کی دستیابی یا متبادل کیا ہوں، اس پر بھی غور کیا جانا چاہئے۔ عوام میں ہماری حیثیت کا اندازہ ہماری تشخیص اور دواﺅں پر ہی منحصر ہے۔ انہوں نے کہا کہ انڈین فارماکوپیا کمیشن میں یونانی اور آیوروید کے ایکسپرٹ ہی شامل ہونے چاہئیں۔ مرکزی حکومت کے محکمہ آیوش کی جانب سے جامعہ ہمدر کے وائس چانسلر مسٹر جی این قاضی کو دوبارہ مذکورہ کمیشن کا چیئرمین بنایا جانا افسوس ناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ یونانی فارمیسی کونسل آف انڈیا کے قیام کی شدت سے ضرورت محسوس کی جانے لگی ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ مرکزی حکومت نیشنل یونانی یونیورسٹی اور یونانی فارمیسی کونسل آف انڈیا کے قیام کو یقینی بنانے کے لےے آئندہ بجٹ میں شامل کرلیا جائے گا۔
میٹنگ کی صدارت پروفیسر ایمریٹس دہلی یونیورسٹی ڈاکٹر عبدالحق نے اس موقع پر اپنی موجودگی کو باعث سعادت بتاتے ہوئے کہا کہ طب یونانی اور اردو کا باہمی رشتہ اور بھی مربوط کےے جانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی جانب سے طب یونانی کے فروغ میں دیا جانے والا تعاون اطمینان بخش ہے۔ پروفیسر عبدالحق نے مزید کہا کہ طب یونانی ہندوستان میں اردو زبان کی وجہ سے ہی اپنا تشخص برقرار رکھنے میں کامیاب رہے گی۔ البتہ ملک کی مختلف علاقائی زبانوں میں یونانی کتابوں کا ترجمہ ہونا چاہئے کیونکہ اس کی تشہیر کے لےے ضروری ہے۔ اس موقع پر پروفیسر بصیر احمد، ڈاکٹر محمد شمعون، ڈاکٹر عبدالحنان، ڈاکٹر عقیل احمد، ڈاکٹر عبداللہ خاں رﺅف، حکیم عطاءالرحمن اجملی، ڈاکٹر صہیب شباب، ڈاکٹر تضمین نیر، ڈاکٹر ابوالبشر، ڈاکٹر محمد عظیم اشرف، ڈاکٹر اعظم ضیا، ڈاکٹر صدف مقبول، ڈاکٹر عبدالحسیب، ڈاکٹر محمد فیضان وغیرہ نے بھی اظہار خیال کیا۔ تمام شرکاءکا شکریہ آل انڈیا یونانی طبّی کانگریس (یوتھ ونگ) کے سکریٹری ڈاکٹر توحید احمد نے ادا کیا۔
          

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔