.

.
تازہ ترین
کام جاری ہے...

مودی جی ! اقتصادی ترقی کا یہ فارمولا ناقص ہے

منگل, فروری 04, 2014

اشرف علی بستوی، نئی دہلی
گزشتہ دنوں نریندر مودی سے میڈیا نے پوچھا کہ ملک کو  اقتصادی بدحالی کی دلدل سے نکالنے کیلئے آپ کے پاس کانگریس سے مختلف معاشی پالیسی کیا ہے؟ ان کا جواب تھا کہ ’’ ٹیلنٹ، ٹریڈیشن، ٹریڈ، ٹورزم اور ٹیکنالوجی ، یہ پانچ اہم امور ہیں جن کے ذریعے ہم ہندوستان کی معیشت کو مضبوط کریں گے‘‘۔ ان کے اس دعوے کا جائزہ لیا جائے تو کم وبیش لفظوں کےفرق سے کانگریس کا بھی دعویٰ یہی ہے اوراب تک ان ہی بنیادوں پر قائم معاشی پالیسی نے ملک کو اقتصادی بد حالی کے نچلے پائدان پر لاکر کھڑا کردیا ہے۔
یہ پالیسی عام آدمی کو کمزور اور ایک خاص طبقے کو مضبوط کرنے والی ہے، اس سے جمہوریت کے وہ وعدے کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکیں گے جس کا خواب آزادی کے معماروں نے دیکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ نریندر مودی نے اقتصادی ترقی کا یہ فارمولا پیش کیا تو سرمایہ دارانہ حلقوں میں بڑی پذیرائی ہوئی، ایک اہم کارپوریٹ ادارے نے یہاں تک کہہ دیا کہ ملک کی سیاست صحیح رخ پر گامزن ہے اور بڑی حد تک اقتصادی سمجھداری میں اضافہ ہوا ہے نیز وسائل کو تقسیم کرنے کے بجائے سرمایہ کاری کو آسان بنانا چاہئے۔ایک دوسرے ادارے کا کہنا تھا کہ ملک کے سو شہروں کی ترقی کا منصوبہ انتہائی اہم ہے۔ اس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور بنیادی ڈھانچے کو وسعت حاصل ہوگی۔
 لیکن تجربات اس کے برعکس ہیں کانگریس نے ایک ماہر اقتصادیات  منموہن سنگھ کی  قیادت میں ملک کو کس مقام پر لاکھڑا کیا ہے اس کی دس سالہ کارکردگی کا حاصل سب کے سامنے ہے صنعتی ترقی کی رفتارمیں بے تحاشا گراوٹ اور عوام کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔  اس لیے 2014میں ملک کی سیاسی قیادت منتقل کرتے وقت عوام کو  سنجید گی سے غور کرنا ہوگا۔ اور اب تقریباً وہی فارمولا  نریندر مودی بھی  پیش کر رہے ہیں اور ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے لئے پرتول رہے ہیں ۔ ایسی صورت میں یہ بھی  دیکھنا ضروری ہے کہ ہندوستان کا اقتصادی مستقبل کیا ہوگا؟ کیونکہ اقتصادی معاملات میں کانگریس کی جو پالیسی ہے ٹھیک وہی پالیسی بی جے پی کی بھی رہی ہے بس فرق صرف لفظوں کی تبدیلی کا ہے۔ ایسی صورت میں جب ملک اقتصادی عدم استحکام کا شکار ہو ایک ایسی متبادل اقتصادی پالیسی وضع کرنے کی کوشش ہونی چاہئے جو ملک کو موجودہ اقتصادی بحران سے نکال کر ملک کے ہر شہری کو ملک کی ترقی میں حصہ فراہم کرنے کی راہیں ہموار کرے۔
ایسےسیاسی گروپ جو بہتر متبادل پیش کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں انہیں پہل کرنی چاہئے ۔تشویش ناک امر یہ ہے کہ  ملک میں رائج الوقت اقتصادی پالیسی نے ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے، بڑا حصہ وسائل سے محروم کردیا گیا ہے اور کچھ لوگوں کو ہندوستان کے وسائل کا مالک بنا دیا گیا ہے اور یہ اسی اقتصادی پالیسی کی وجہ سے ہے جس پر بی جے پی اور کانگریس سمیت دیگر سیاسی جماعتیں عمل پیرا ہیں ۔ الگ الگ نعروں کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے والے یہ سیاسی گروپ اسی پالیسی پر عمل کرتے ہیں جو عام آدمی کو حاشیے پر پہنچانے کا کام کرتی ہے۔
لیکن تشویش ناک امر یہ ہے کہ باوجود اس کے کارپوریٹ مفادات کا محافظ ملک کا  میڈیا پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات سے فارغ ہونے کے بعد تازہ دم ہوکر نئے سرے سے ایک بار پھر 2014کے عام انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہوگیا ہے۔ ملک کا اگلا وزیراعظم کون ہوگا؟ کسی پارٹی یا سیاسی گروپ کی حکومت بنے گی؟ اور کسے کتنی سیٹیں حاصل ہوںگی؟ یہ اور اس طرح کی دیگر باتوں کی پیش قیاسی ملک کے نیوز چینلوں نے دوبارہ شروع کردی ہے۔ گویا ’’عام آدمی‘‘ کے ذہن و دماغ اس وقت سے اپنے بے بنیاد سروے کے ذریعے متاثر کرنے کا کام شروع کردیاگیا ہے۔ ایسا لگتاہے کہ ان  ٹی وی چینلوں نے قیاس آرائیوں کا سودا کرنے میں حد سے تجاوز کرنے کی ٹھان لی ہے۔ ٹی وی چینل جہاں ایک طرف اپنے بے بنیاد سروے کے ذریعے ملک کے عوام کو گمراہ کرنے کاکام کررہے ہیں وہیں دوسری جانب بی جے پی کے کیڈرس کو بھی یہ باورکرانے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں کہ اگر بی جے پی اقتدار چاہتی ہے تو ہرصورت میں نریندر مودی کو قبول کرلینا چاہیے۔ ایسا اس لیے بھی ہے کہ بی جے پی میں ایک گروپ آج بھی سرگرم ہے جو نریندر مودی کو پسند نہیں کرتا،جس کا اظہار خاص موقعوں پر ہوتا رہا ہے۔ ایل کے آڈوانی اور ان کے ہم خیال کئی لیڈر اپنے طورپر اس بات کو کئی دفعہ کہہ چکے ہیں، اس لیے سروے کی یہ مہم ہر اعتبار سے مستحکم اور منظم انداز میں شروع کی گئی ہے۔ آر ایس ایس کی سخت ہدایت کے باوجود اندورن خانہ اندیشہ اس بات کا ہے کہ بی جے پی کے وہ لوگ جو کسی وجہ سے نریندر مودی کو پسند نہیں کرتے وہ آخر میں اپنا فیصلہ تبدیل کرکے دوسرا متبادل نہ تلاش کرلیں، اسی خطرے کے پیش نظر نریندر مودی کو بی جے پی کا ناخدا بناکر پیش کیاجارہاہے۔

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔