.

.
تازہ ترین
کام جاری ہے...

کانگریس: جب دیا رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا

ہفتہ, جنوری 11, 2014

شکیل اختر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی
بھارت کے وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے جمعہ کو اچانک یہ اعلان کیا کہ وہ مختلف ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کو ایک خط لکھنے والے ہیں جس میں وہ انہیں یہ مشورہ دیں گے کہ وہ دہشت گردی کے معاملوں میں گرفتار کیے گئے مسلمانوں کے کیسز کا جائزہ لیں۔
انھوں نے کہا کہ ان کیسز کا جائزہ لینے کے لیے ایک سکریننگ کمیٹی بنائی جائے جو ان نوجوانوں کے معاملات کا جائزہ لے جو کسی مقدمے کے بغیر برسوں سے جیل میں ہیں۔
انھوں نے ریاستوں کو یہ مشورہ بھی دیا کہ دہشت گردی کے معاملوں میں مسلمانوں کی گرفتاری کے وقت احتیاط سے کام لیا جائے۔
وزیر اعظم منموہن سنگھ کی حکومت دس برس سے اقتدار میں ہے اور اب اس کی مدت پوری ہونے میں محض چار مہینے باقی بچے ہیں۔ آئندہ تین مہینے میں پارلیمانی انتخابات کا عمل شروع ہو جائے گا اور حکمراں کانگریس سمیت سبھی بڑی جماعتیں اب انتخابی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ ایسی حالت میں وزیر داخلہ شندے کا یہ بیان سیاسی مصلحت سے خالی نطر نہیں آتا۔
خوف کی سیاست
"کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ کانگریس، ملائم سنگھ کی سماجوادی پارٹی اور لالو یادوکا راشٹریہ جنتا دل ماضی کی طرح مسلمانوں میں دہشت گردی کی گرفتاریوں اور اور فسادات کے حوالے سے خوف زدہ کرنا چاہتی ہیں تاکہ وہ انتخابات میں 14 فی صد مسلمانوں کے ووٹ میں اپنا اپنا حصہ حاصل کر سکیں۔ اب تک یہ جماعتیں پروگراموں اور پالیسیوں کے تحت نہیں بلکہ مسلمانوں کو خوفزدہ کر کے ووٹ حاصل کرتی رہی ہیں۔"
کانگریس کے 10 برس کے دور اقتدار میں پورے ملک میں سینکڑوں مسلمانوں کو دہشت گردی کے الزام میں میں گرفتار کیا گیا۔ بعض معاملوں میں تو یقیناً سکیورٹی ایجینسیوں نے بڑی کامیابی حاصل کی اور ایسے افراد کو گرفتار کیا جن کے نام ایک طویل عرصے سے دہشت گردی کے خوفناک واقعات سے منسوب رہے تھے اور جنہیں پولیس تلاش کر رہی تھی۔ لیکن ساتھ ہی اس مدت میں سیکڑوں لو گ ایسے بھی گرفتار ہوئے ہیں جن کے بارے میں یہ باور کیا جاتا ہے کہ ان کا ان واقعات سے کوئی تعلق نہین رہا ہے۔
اب جب کہ منموہن سنگھ کی حکومت ختم ہونے میں محض تین مہینے باقی ہیں تو اچانک شندے کو مسلمانوں کا خیال کیوں کر آیا؟
شندے کو اگر یہ محسوس ہو رہا تھا کہ گرفتاریوں میں کچھ بے قصور لوگ نشانہ بن رہے ہیں تووہ یہ سیدھا سا بیان دے سکتے تھے کہ بے قصوروں کو دانستہ طور پر پھنسانے والے افسروں کے خلاف قانونی کاروائی ہوگی اور حکومت بے قصوروں کو معاوضہ ادا کرے گی۔ لیکن ظاہرہے مقصد یہ نہیں تھا۔

کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ کانگریس، ملائم سنگھ کی سماجوادی پارٹی اور لالو یادوکا راشٹریہ جنتا دل ماضی کی طرح مسلمانوں میں دہشت گردی کی گرفتاریوں اور اور فسادات کے حوالے سے خوف زدہ کرنا چاہتی ہیں تاکہ وہ انتخابات میں 14 فی صد مسلمانوں کے ووٹ میں اپنا اپنا حصہ حاصل کر سکیں۔ اب تک یہ جماعتیں پروگراموں اور پالیسیوں کے تحت نہیں بلکہ مسلمانوں کو خوفزدہ کر کے ووٹ حاصل کرتی رہی ہیں۔
گذشتہ ایک برس میں ملائم سنگھ کے اتر پردیش میں درجنوں فسادات ہو چکے ہیں۔ مظفر نگر کا فساد بھی اسی حکمت عملی کا حصہ بتایا جاتا ہے۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی ایک ماہر سیاسیات نے حال میں ایک مضمون میں متنبہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مسلمانوں میں خوف پید ہ کرنے اور ہندوؤں کو یکجا کرنے کے لیے انتخابات سے پہلے مظفر نگر طرز کے مزید فسادات ہو سکتے ہیں۔
لیکن کانگریس، ملائم ، لالو اور بی جے پی جیسی جماعتوں کے سامنے اب ایک نیا مسئلہ پیدہ ہو گیا ہے۔ عام آدمی پارٹی۔ یہ نئی جماعت قومی انتخاب میں اترنے سے پہلے ان روایتی جماعتوں کے لیے ایک سنگین چیلنج بن چکی ہے۔ اب یہ جماعتیں خود خوفزدہ نظر آرہی ہیں۔
بھارت میں مسلمانوں کی آبادی تقریبا 14 فیصد ہے اور یہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہے


0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔