.

.
تازہ ترین
کام جاری ہے...

کیا ہے مودی کے پرو پیگنڈے کی حقیقت

جمعرات, جنوری 16, 2014

رشید انصاری تجزیہ:

ہندوستان میں تجارتی ٹی وی چینلز یا برقی میڈیا کا رویہ اپنے قیام کے وقت سے ہی قابل اعتراض ہی نہیں بلکہ جانبدارانہ رہا ہے۔ ایک خاصی مدت تک تو ٹی وی کا مطلب صرف دوردرشن تھا پھر تجارتی ٹی وی چینلزسامنے آئے۔ دوردرشن اور آکاش وانی (آل انڈیا ریڈیو تو تھے ہی سرکاری اس لئے ان کا حکومت کا حامی ہی نہیں بلکہ سرکاری پروپگنڈے کا ذریعہ ہونا عام یا معمول کی بات تھی ۔ دنیا میں عام طور پر یہی ہوتا ہے۔ خانگی یا تجارتی چینلز پر کوئی پابندی نہیں ہوتی ہے۔ خانگی چینلز کی مقبولیت ان کی غیر جانبداری میں مضمر ہوتی ہے۔ ویسے یہ بھی سچ ہے کہ مکمل جانبداری تو بہت ہی کم دیکھنے میں آتی ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی اخبارات، خانگی ریڈیو یا ٹی وی چینلز کسی نہ کسی حدتک جانبدار ہوتے ہیں لیکن ان کی جانبداری میں بھی ایک توازن بہر حال ہوتا ہے۔ حق سے پہلو تہی اور اہم بات کو نظر انداز کرنا(چاہے وہ ان کے خلاف ہی کیوں نہ ہو) ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔ مغربی دنیا میں بڑی سیاسی پارٹیوں کی ترجمانی کرنے والے ان کے اپنے ذرائع ابلاغ ہوتے ہیں۔ جو اپنی پارٹی کے مفادات کی ترجمانی کرتے ہیں لیکن دوسری جماعتوں کو سرے سے نظر انداز کرنا ان کا مسلک نہیں ہوتا ہے کسی نہ کسی حدتک اعتدال برتا جاتا ہے۔
ملک میں جب سے بی جے پی اور سنگھ پریوار کا زور ہوا اور ان کا دائرہ کار اور مقبولیت کا حلقہ بڑھنے لگا سنگھ پریوار نے ذرائع ابلاغ پر اپنا اثر بڑھانا شروع کردیا اس سلسلہ میں یہ امر بھی غور طلب ہے کہ دنیا کے ذرائع ابلاغ پر عالمی صیہونی تحریک چھائی ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں اخبارات اور ٹی وی چینلز اور ریڈیو کو انہوں نے اپنے زیر اثر رکھا ہے۔ ہندوستان میں سنگھ پریوار صیہونیوں اور اسرائیل کا سب سے بڑا حلیف، معاون و مدد گار رہے۔ یہاں تو سنگھ پریوار کا تمام ذرائع ابلاغ پر یوں بھی خاصہ اثر تھا لیکن صیہونی اثرات کے بعد تو بیشتر تمام بڑے انگریزی، ہندی اخبارات اور ٹی وی چینلز ہی نہیں بلکہ علاقائی زبانوں کے اخبارات اور چھوٹے ٹی وی چینلز بھی سنگھ پریوار کو زیر اثر ہیں جس کو اخبارات کا عام قاری اور ٹی وی چینلز کا عام ناظر بھی محسوس کرتا ہے۔ اب نریندر مودی کے معاملے میں ٹی وی چینلز کا رویہ سخت قابل اعتراض ہے۔ بیشتربلکہ 90فیصد ٹی وی چینلز خواہ وہ انگریزی کے ہوں یا ہندی کے ہوں یا علاقائی کیوں نہ ہوں مودی کے پروپگنڈہ میں یوں مصروف ہیں گویا یہ چینلز مودی کی انتخابی مہم کے لئے خود نریندر مودی نے قائم کررکھے ہیں۔
نریندر مودی کے ساتھ ٹی وی چینلز کی یہ ہمدردی اور دل کھول کر ان کا ہر طرح پروپگنڈہ یوں ہی نہیں ہے اور نہ ہی تمام ٹی وی چینلز یہ کام مودی نوازی کی خاطر کررہے ہیں۔ بیشتر ٹی وی چینلز تجارتی ہیں ہر ایک گھنٹہ کا بعض وقت 40تا50فیصد وقت اشتہاروں کودیا جاتا ہے۔ اس لئے یہ فرض کرنا ہے کہ سارے ٹی وی چینلز نہ سہی بیشتر یہ سب مفت میں مودی کی خاطر کررہے ہیں۔ بھیانک غلطی ہے۔ 
گجرات 2002ء میں مودی نے جس سّفاکی اور بے رحمی اور عمدہ کارکردگی کے ساتھ مسلم دشمنی کا مظاہرہ کیا تھا اس کی وجہ سے وہ نہ صرف سنگھ پریوار بلکہ تمام مسلم دشمن عناصر کے لئے پسندیدہ قرار پائے۔ 2004ء میں این ڈی اے کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد سنگھ پریوار اور بیرونی مسلم دشمنوں کے لئے مودی (گجرات میں ان کی دوبارہ کامیابی کے بعد) امید کی کرن بن گئے۔ صیہونی کسی کام میں جلدی نہیں کرتے ہیں۔ مودی کی کارکردگی اور گجرات میں ترقی کا پروپگنڈہ کرنے کے لئے میڈیا کو عرصہ تک استعمال کیا گیا۔ این ڈی اے کی 2009ء میں ناکامی کے بعد پریوار اور ان کے بیرونی آقاؤں نے مودی کو آگے بڑھانے کا فیصلہ اور تمام نفسیاتی حربوں کے ساتھ مودی کو وزارتِ عظمیٰ کا امیدوار بنانے کے لئے اشارے دئیے جانے لگے۔ رفتہ رفتہ بات دھیرے سروں میں مودی کی گجرات میں تیسری کامیابی سے قبل ہی کہی جانے لگی تھی اور مودی جب گجرات تیسری بار کامیاب ہوئے تو ان کی امیدواری کا چرچا ہونے لگا۔ میڈیا مودی کے لئے زمین ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ مودی مغرب یہودیوں اور اسرائیل کے بھی پسندیدہ ہیں۔ چنانچہ امریکہ کی عالمہ شہرت کی مالک خبر رسانی اور عوامی روابط کی یہودی مشاورتی کمپنی APCO WORLDWIDE نے نریندر مودی کو وزیر اعظم بنانے کے لئے لابنگ LOBBYINGکا کام کررہی ہے۔ یہ بات APCOکی سی ای او (CEO) مار گری کراوس MRGERY KRAUSنے بتائی ہے اور دیگر انکشافات بھی کئے۔ اس فرم کے ہندوستان میں منیجنگ ڈائرکٹر MDسوکانتی گھوش نریندر مودی کو وزیر اعظم بنانے کی مہم کی انچارج ہیں۔ ہندوستان کے مشہور سفارت کار للت مان سنگھ (سابق سفیر برائے امریکہ و برطانیہ) بھی APCO سے متعلق ہیں اور نریندر مودی کی انتخابی مہم میں اے پی سی او کیلئے خدمات انجام دے ہیں۔ امریکہ کی اس فرم کی مودی کے لئے زبرست مہم یہودی اور ہندوستانی سرمایہ داروں کے مفادات کے تحفظ کے لئے ہے۔ بیرونی ممالک اور ہندوستانی میڈیا کی مودی کیلئے تائید کی دو وجوہات ہیں سب سے پہلے سرمایہ داروں کے مفادات اس کے بعد مسلم دشمنی، مودی نے گجرات میں سرمایہ داروں کو ناقابل یقین سہولتیں فراہم کی ہیں اور گجرات میں کوڑیوں کے مول ملنے والی زمین، ناقابل تصور سستی بجلی، ٹیکسوں سے چھوٹ ارزاں خام مال اور کم سے کم اجرت پر افرادی قوت سرمایہ داروں کے لئے پرکشش ہے جس کے بل پر گجرات میں کم اجرت پر تیار کیا ہوا مال ہمارے ملک میں مہنگے داموں پر بکتا ہے۔ خطیر منافر بیرون ملک چلاجاتا ہے اس کا اثر ہماریہ روپیہ کی قدر پر پڑا ہے۔ اس طرح صنعتوں کو گجرات میں فروغ حاصل ہوا ہے۔ اسی صنعتی ترقی کو وکاس (ترقی) کا نام دے کر میڈیا مودی کی قصیدہ گوئی میں مصروف ہے۔ 
وزارت عظمیٰ کے امیدوار کو میڈیا اس طرح پیش کررہا ہے جیسے کہ وہ بی جے پی کے نامزد کردہ امیدوار ہیں بلکہ واقعی (اللہ نہ کرے) وزیر اعظم بن گئے ہیں۔ حالانکہ پہلا مرحلہ تو ان کی اپنے حلقے سے کامیابی ہے۔ اس کے بعد اگر بی جے پی یا این ڈی اے اقتدار میں آنے کے موقف میں ہو تو ان کی بات آگے بڑھے گی لیکن مودی کے وزیر اعظم بن سکنے کو یقینی بتاتا بھی ایک حربہ ہے۔ صیہونی ایسے کھیلوں کے ماہر ہیں۔
دوسری طرف میڈیا اب اس بات کا حلق پھاڑ کر پروپگنڈہ کرنے میں مصروف ہے کہ 2002ء کے سلسلے میں سپریم کورٹ کی ہدایت پر مودی کے رول کے بارے میں تحقیقات کرنے کیلئے بنائی گئی ٹیم SITنے مودی کو جو کلین چٹ دی تھی اس کو عدالت نے تسلیم کرلیا ہے۔ حالانکہ یہ احمد آباد کے مجسٹریٹ کی ذیلی عدالت ہے ابھی کئی عدالتیں باقی ہیں اور اگر اعلیٰ عدالتوں میں جرم ثابت نہ ہوسکے اور ’’معاشرہ کے اجتماعی ضمیر کی تسلی ‘‘کو عدالتیں ضروری نہ سمجھ کر ان کو بری اگرکربھی دیں تو بہ حیثیت وزیر اعلیٰ ان کی اخلاقی ذمہ داری سے ان کو نہ صرف دنیا کی کوئی عدالت بری نہیں کرسکتی ہیں۔ اس وزیر اعلیٰ کی کارکردگی کے معیار پر سوال ضروری اٹھیں گے۔ جس کی ریاست میں مہینوں فساد ہوتے رہیں۔ دو ہزار سے زیادہ افراد کو قتل کیا جائے ہزاروں کو بے گھر اور تباہ و برباد کردیا جائے۔ ایسا شخص بھلا ملک کی وزارت عظمیٰ کیسے سنبھال سکے گا۔ جو اس قتل و غارت گری کی پر فخر کرتے ہوئے ’’گؤرو‘‘ ریالیاں کرے معذرت خواہی تو دور رہی (12) سال کے بعد اظہار افسوس کرے تو بھی بے دلی سے اور رسمی انداز میں جس کے گجرات میں ترقی کے دعوے جھوٹے ثابت ہوچکے ہو ں وہ بھلا کس طرح قابل اعتماد ہوسکتا ہے۔ 
اخبارات اور خاص طور پر خانگی ٹی وی چینلز کی بڑی تعداد کو مودی کے حامیوں نے مودی کے پروپگنڈے کے لئے بلاشہ کرایہ پر حاصل کررکھا ہے اور ٹی وی کے خریدے ہوئے وقت کی قیمت پر کروڑون خرچ ہورہے ہیں۔ مودی جس طرح اپنی تشہیر کے لئے کروڑوں خرچ کررہے ہیں۔ اتنے غیر معمولی اخراجات کی متحمل کوئی دوسری پارٹی نہیں ہوسکتی ہے۔ کیا یہ عدم مساوات نہیں ہے اور عدم مساوات جمہوریت کی بنیاد پر کاری ضرب لگاتی ہے۔
الیکشن کمیشن تو انتخابات کے اعلان کے بعد تمام امیدواروں کے انتخابی اخراجات پر نظر رکھتا ہے لیکن اس سے قبل یعنی انتخابات کے اعلان سے قبل مودی جو کروڑوں کے اخراجات کررہے ہیں وہ کس کھاتے میں جائیں گے؟
اس بارے میں الیکشن کمیشن ہی نہیں بلکہ سپریم کورٹ (عدالت عظمیٰ) کو بھی متوجہ کرنا چاہئے۔ یہ اہم معاملہ فوری توجہ کا مستحق ہے۔
میڈیا جس وجہ سے بھی مودی کی اس طرح تشہیر کررہا ہے وہ از خود قابل اعتراض ہے۔ مودی کے ہر جلسے، ہر ریالی اور ہر تقریر اور گفتگو کو باالراست (Live) ٹیلی کاسٹ کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی تشہیر جس کی مثال ملنی مشکل ہے انتہائی قابل اعتراض ہے۔
یہی نہیں بلکہ بیشتر ٹی وی چینلز پر مذاکرات یا ٹی وی پر ہونے والی گفتگو میں مودی کی تشہیر کرنے والے افراد کو دوسروں سے زیادہ وقت دیا جاتا ہے ۔ مودی کے مخالفوں کو اول تو بولنے کا موقعہ اینکر صاحب کم دیتے ہیں یا جو بھی وقت دیا جاتا ہے اس میں بی جے پی کے حامی انتہائی بداخلاقی بلکہ بے ہودگی اور بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حلق کے بل چیخ چیخ کر مودی کی مخالفت میں بولنے والے کو بولنے ہی نہیں دیتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے ہیں کہ ان باتوں کی وجہ سے مودی کی کامیابی یقینی ہوسکتی ہے تاہم ٹی وی سے جس طرح مودی کی تشہیر ناجائز طریقوں سے ہورہی ہے وہ قانونی طور پر صحیح بھی ہوتو اخلاقی طور پر قابل مذمت ہے اور جمہوری روایات ہی کے خلاف نہیں ہے بلکہ اس سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی بدنامی ہوسکتی ہے۔ بی جے پی کو اس طرح صریحاً دھاندلی کا موقعہ دینا قطعی غیر اخلاقی حرکت ہے۔
الیکشن کمیشن اور عدالتیں قواعد و ضوابط کے احاطہ میں محصور ہیں لیکن میڈیا سے متعلق ادارے پریس کونسل وغیرہ کو اس جانبداری اور دھاندلی کا تدارک کرنا چاہئے۔ ماضی میں اگر کوئی خبر بطور اشتہار شائع کی جاتی تو کونے میں اور غیر نمایاں طور پر سہی لفظ اشتہار لکھ دیا جاتا تھا۔ آج کل اس پر عمل نہیں ہوتا ہے۔ ہر ٹی وی کچھ پروگروام ’’اسپانسر‘‘ کئے جاتے ہیں اور کفیل یا اسپانسر کا نام دیا جاتا ہے۔ اسی طرح مودی کے لئے خصوصی پروگراموں کو بھی اسپانسرڈ ، کفایت شدہ، بتایا جانا چاہئے۔ مودی کی لن ترانیوں، بیہودہ گوئی کی بالراست ٹیلی کاسٹ سے ٹی وی چینل اپنی ساکھ متاثر کررہے ہیں۔ یہ سوالات فوری توجہ کے مستحق ہیں۔ 

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔