.

.
تازہ ترین
کام جاری ہے...

ہندوستان میں ویکسین کی عدم دستیابی کا مسئلہ

جمعرات, جنوری 16, 2014
کسی بھی ملک کی ترقی وہاں بسنے والے عام انسانوں کی ترقی و خوش حالی پرمنحصرہوتی ہے اوریہ صحت مند معاشرے کے بغیر ممکن نہیں ہے ، ترقی کے تمام تر دعوے اس وقت تک  ناقص ہیں جب تک عوام کو صحت مند زندگی میسر نہ ہو۔  یہی وجہ ہے  کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے صحت عامہ کی بہتری کو یقینی بنانے میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کی ہے ۔
 صحت عامہ کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے بیماریوں کے ٹیکے بھی کافہ اہم کر دار ادا کر تے ہیں اور بڑی حد تک ان ٹیکوں کی وجہ سے بعض مہلک بیماریوں پر قابو پا یا جا سکتا ہے ۔ لیکن ہندوستان  میں صحت عامہ کی بد ترصورت حال نے تشوش ناک صورت اختیا ر کر لیا ہے  اس کی بنیا دی وجہ صحت سہولیات کی فراہمی کا فقدان ہے بڑی آبادی کی صحت آج بھی غیر تربیت یافتہ ڈاکٹروں کے رحم و کرم پر ہے ۔ سب سے زیدہ تشویش ناک صورت حال بچوں کی صحت کو ہے ۔  اور یہ موات زیا دہ تر ان بیماریوں کے سبب ہو رہی ہیں  جن پر قابو پایا جا سکتا ہے صحت سے متعلق ایک تازہ  رپورٹ میں تشویش ناک صورت حال سامنے آئی ہے  رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں ہر چار منٹ میں 5 بچوں کی موت  ہو جاتی ہے ۔ افسوس ناک  امر یہ ہے کہ یہ اموات زیادہ تر ان بیماریوں کے سبب ہو رہی ہیں جن کو روکا جا سکتا ہے ۔ جس میں ڈینگو،او نمونیہ جیسی دیگر بیماریاں شامل ہیں ظاہرہے  براہ راست ذمے دار  مرکزی اور ریاستی سرکاریں  ہیں جو عام آدمی کی صحت کے لیے پالیسی تیار کرتی ہیں اورساتھ ہی پبلک سیکٹر فارمیسی کمپنیاں ہیں جو دواسازی میں معیار کو قائم نہیں رکھتیں ۔
جان ہاپکن یونیورسٹی نے ریسرچ میں پایا  ہے کہ ہندوستان میں 3.71 لاکھ شیر خوار بچے ہر سال نمونیہ سے موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ دنیا میں نمونیہ سے مرنے والا ہر چوتھا بچہ ہندوستانی ہوتا ہے۔ یہاں افریقہ ،پاکستان اور افغانستان سے بھی زیادہ تشویش ناک   صورت حال ہے۔
تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ہندوستان میں نمونیہ کی 23 اقسام  پائی جاتی ہیں  جسے کے تئیں بیداری پیدا کرنے  اور ان کی روک تھام کے اقدامات نہیں کیے گئے ۔
ہیپا ٹائٹس بی کی ویکسینوں کی قلت مستقل مسئلہ ۔ حیدر آباد کی ایک کمپنی نے یہ ذمہ داری لی ہے کہ وہ ہیپا ٹائٹس بی کے ٹیکوں کی کوالٹی کومنظوری دے گی مگر اس نے محکمہ صحت کو ان کی سپلائی اپریل 2011 سے نہیں کی ہے۔
ملک میں  پیلے بخار کے ٹیکے بھی بہت عرصے سے دستیاب نہیں ہیں سے حصوں میں غائب ہور ہی ہیں۔ رپورٹ یہ بھی ہے  کہ کولکاتہ اور دہلی کے سرکاری صحت مراکز میں بھی ٹیکوں کی قلت پیدا ہوگئی ہے ۔ جہاں شدید بدانتظامی کے علاوہ محکمہ صحت اور سرکاری اسپتال چل رہے ہیں ۔
دسمبر 2008 میں وزارت صحت کی ایک ٹیم نے 13 مختلف ریاستوں کا دورہ کیا اور پایا کہ بہار کے اسپتالوں میں ڈپتھیریا، کالی کھانسی اور ٹیٹنس کے ٹیکوں کی شدید قلت ہے ۔ آسام میں خسرہ کی اور کیرالہ میں خناق ،ٹیٹنس ویکسین کی کمی ہے اور یوپی میں ڈی ٹی اور ٹی ٹی کی کمی ہے ۔ مزید برآں، اڈیشہ میں ڈی ٹی ویکسین اپریل دسمبر2011 کے مابین دستیاب نہیں تھیں اور ڈی پی ٹی ویکسینیں اس سال اگست ستمبرکے مابین نہیں مل رہی تھیں۔ مسٹر رام دوس نے پارلیمنٹ میں اعتراف کیا کہ ڈی پی ٹی کی خوراکیں اپریل دسمبر2011کے مابین 3.5 ملین بہار میں ، 6.2 ملین یوپی میں اور مغربی بنگال میں 3.3 ملین کی شرح سے پہنچیں ۔ وزارت صحت کے اعداد و شمارکے مطابق اپریل تا نومبر کی مدت میں بی سی جی ویکسین یوپی میں 7.9 فی صد کی شرح سے اور پنجاب میں 11.5 فیصد کی شرح سے کم پڑ گئیں جبکہ اڈیشہ میں مجموعی طورپر 29.5 کی اور مغربی بنگال میں 36.2 فیصد کی شرح سے کم پڑگئیں ۔
مندرجہ بالا رپورٹ کے تجزیے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ملک میں صحت کے شعبے میں ترقی کے باوجود صحت عامہ کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے میں ہمارا ملک ابھی تک کامیابی حاصل نہیں کر سکا ہے  جبکہ وسائل کی فراہمی بھی ہے ، اگر وافر مقدار میں بیماریوں کے ٹیکوں کی فراہمی کو یقینی بنا دیا جائے تو بڑی حد تک مہلک بیماریوں پر قابو پا یا جا سکتا ہے ۔ وزارت صحت  کی خصوصی توجہ سے یہ کام انجام دیا جا سکتا ہے ۔کیونکہ  صحت مند ہندوستانی سماج کے بغیر ترقی یافتہ بھارت کا خواب ادھورا ہے۔

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔