.

.
تازہ ترین
کام جاری ہے...

انڈین امریکن مسلم کاؤنسل کا اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کے نام کھلا خط

ہفتہ, جنوری 04, 2014

جناب اکھلیش یادو صاحب!
یہ خط میں انڈین امریکن مسلم کاؤنسل کی جانب سے لکھ رہا ہوں۔ یہ امریکہ میں مقیم ہندوستانیوں کی تنظیم ہے جو ہندوستان کے تعدّدی اور رواداری کے تمدن کے تحفظ کے لئے کام کرتی ہے۔
مظفرنگر اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں منصوبہ بند فرقہ وارانہ تشدد 2002ء کے گجرات فسادات میں اقلیتوں پر مظالم اور 2012ء میں آسام میں مسلمانوں کو قتل عام و بے گھر کرنے کے بعد کا سب سے بدترین واقعہ ہے۔ جس طرح سے مغربی یوپی میں پورے مسلم سماج کو قتل، جنسی تشدد اور خوف و ہراس کے ذریعہ صدمہ سے دوچار کیا گیا ہے، اور یہ حقیقت کہ ظالم ابھی تک آزادانہ گھوم رہے ہیں، ظلم کی ایک اندوہناک مثال ہے، جسے صرف نفرت کی آئیڈیالوجی رکھنے والے ہی برداشت کرسکتے ہیں۔ اس سے آپ کے نظم و نسق کے تئیں قانون کی حکمرانی اور تمام ہندوستانی شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کی کمی بھی واضح ہوتی ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ زخم پر نمک چھڑکتے ہوئے آپ کی حکومت نے صرف ان دیہاتوں میں فرقہ وارانہ تشدد کو تسلیم کیا ہے جو بہت زیادہ متأثرہوئے ہیں جبکہ دوسرے بہت سے دیہاتوں کے مہاجرین کو حقیقی متأثرین نہیں سمجھا گیا۔ اور اس سے بھی خراب بات تو یہ ہے کہ ان مہاجرین کو ’’موقع پرست‘‘ سمجھا گیا۔ آپ کے والد اور پارٹی کے سربراہ کا یہ بیان کہ مہاجر کیمپوں میں رہنے والے بی جے پی اور کانگریس پارٹی کے ایجنٹ ہیں، سماج وادی پارٹی کے ذہنی دیوالیہ پن کو بیان کرتا ہے۔ یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ کیوں دسیوں ہزار لوگ اپنے گھروں اور آبائی وطن کو چھوڑکر ناقابل رہائش مہاجر کیمپوں میں رہیں گے۔ اگر وہ اپنے گھروں میں بلا خوف و خطر اور وقار کے ساتھ زندگی گزارنے کے قابل ہوتے تو وہ ایسا کیوں کرتے؟ 
مغربی یوپی کی اس کڑاکے کی سردی کے دوران مظفرنگر کے کیمپوں کو جبراً خالی کرانا اور تباہ کرادینا سب سے زیادہ ظالمانہ حرکت ہے جس کا تقابل فلسطینیوں کے خلاف صہیونی سرگرمیوں سے کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ اس پورے معاملے میں سب سے زیادہ غیرانسانی حرکت ہے۔
مہاجر کیمپوں میں سخت ترین سردی میں مرنے والے بچوں کا نوٹس خود سپریم کورٹ نے لیا ہے۔ بدقسمتی سے دل کو دہلا دینے والی یہ حقیقت بھی آپ کی حکومت کو صورتحال بہتر بنانے کے لئے متحرک نہیں کر سکی۔ دوسری طرف کیمپوں کو مہاجرین سے زبردستی خالی کروایا جا رہا ہے تاکہ دنیا کو گمراہ کیا جاسکے کہ حالات معمول پر آگئے ہیں۔
میڈیا رپورٹس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے نظم و نسق نے سینکڑوں مہاجر خاندانوں سے ایک حلفنامہ پر دستخط لی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنے دیہاتوں اور گھروں کو واپس نہیں لوٹیں گے اور اس کے عوض انہیں فی خاندان 5لاکھ روپئے دیئے جائیں گے۔ اس سے کئی نئے مسائل پیدا ہوں گے۔ 
1 -150 مہاجرین اس وقت یا تو اپنے دیہاتوں کو واپس جانے کے قابل نہیں ہیں یا واپس جانا نہیں چاہتے، چونکہ فسادیوں نے انہیں دوبارہ تشدد کا خوف دلایا ہے۔ اس خوف کو بہانہ بنانا کہ مہاجرین اپنے مقام کو واپس لوٹنا نہیں چاہتے اور دی جانے والی رقم کے بدلے میں وہ اپنے حق جائیداد کو چھوڑنے لئے تیار ہیں، یہ بتاتا ہے کہ حکومت مظفرنگر اور اس کے اطراف و اکناف کو مسلمانوں سے خالی کرانا چاہتی ہے اور اس مذہبی تطہیر کو ایک قانونی شکل دینا چاہتی ہے۔ 
2 - 150 سپریم کورٹ کے وکیل نوشاداحمد نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ حلفنامہ غیرقانونی اور غیردستوری ہے۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ متأثرین کی بازآبادکاری کرے اور ان کے جان و مال کے نقصانات کا معاوضہ ادا کرے۔ اس طرح کے معاوضے کو مشروط نہیں بنایا جا سکتا کہ متأثرین اپنے آبائی گھروں کو واپس نہ لوٹیں اور وہ واپس لوٹنے کے حق سے ہی دستبردار ہوجائیں۔ 
3 - 150 حکومت یہ بتانے میں تکلیف محسوس کر رہی ہے کہ متأثرین اپنی جائیدادوں کے مالک رہیں گے حالانکہ ایسی ملکیت بے معنی ہوگی اگر یہ لوگ اپنے گھروں کو لوٹنے کے ہی قابل نہیں ہونگے۔ اس طرح کی رکاوٹوں سے ان کے گھروں اور جائدادوں کی قیمت بھی گرے گی جیسا کہ مجبوراً جائداد اونے پونے داموں میں بیچنے سے ظاہر ہورہا ہے۔
4 - 150 حلفنامے کے ذریعہ مہاجرین کو ان کے دیہاتوں کو واپس ہونے کی سہولتوں کی فراہمی کی ذمہ داری سے حکومت بری ہو جاتی ہے۔ متأثرین کو اپنے وطن سے نکال دینا تشدد کرنے والے فسادیوں کا ایک مقصد ہے، اور حکومت کا حلفنامہ فسادیوں کے اس باطل مقصد و منشا کو پورا کرنے اور اسے قانونی منظوری دینے کے مترادف ہے۔
5 - 150 اس حلفنامے کے لئے ضروری ہے کہ دیہات کے پردھان کی بھی اس پر دستخط یا منظوری ہو جبکہ اکثر معاملات میں یہ پردھان خود تشدد کے لئے اکسانے کے ملزم ہیں۔
ریاستی نظم و نسق کو مہذب حکمرانی کے تسلیم شدہ اصولوں کے مطابق کرنے کے لئے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ حسب ذیل اقدامات فوراً اٹھائیں:
۱- معاوضہ کے بدلے گھر واپس ہونے کے متأثرین کے حق سے بے دخلی کی شرط کو فورا منسوخ کردیں۔
۲- ایف آئی آر میں درج افراد کے خلاف قانونی کارروائی کو تیز کریں، چاہے ان کا رتبہ اور مذہب کچھ ہی کیوں نہ ہو۔ اور ان متأثرین کو نئے ایف آئی آر درج کروانے کی سہولت دیں جو اب تک خوف کی وجہ سے اپنی شکایتوں کو درج نہیں کراسکے ہیں۔
۳- جنسی تشدد کے متأثرین کو خصوصی معاوضہ ادا کریں اور اس کے ذمہ دار فسادیوں کو جن کی نشاندہی کی گئی ہے فوری طور پر گرفتار کریں۔ 
۴- گھروں اورجائدادوں کے نقصانات کا سروے کرائیں اور متأثرین کو ان کے نقصانات کے مطابق معاوضہ دیں اور انہیں ان کے وطن لوٹنے کے حق سے محروم نہ کریں۔
۵- ایسے معاملات میں جہاں متأثرین اس قدر صدمہ سے دوچار ہیں کہ ان کی واپسی ممکن نہیں ہے، ایسے متأثرین کو حکومت کی زمین پر آباد کرتے ہوئے نئی آبادیاں بسائیں اور ایسا نہ ہو کہ متأثرین سے کہہ دیا جائے کہ وہ اپنے طور پر ہی اپنا مسئلہ حل کریں۔ 
۶- تشدد کے دوران متأثر ہونے والی عبادتگاہوں کی مرمت کا کام فوری طور پر انجام دیں۔
۷- مہاجرین کے کیمپوں سے متأثرین کے جبری تخلیہ کو روک دیں۔ کیمپوں میں رہنے کے حالات کو بہتر بنانے کے لئے کافی مقدار میں غذا، طبّی اور صفائی کی سہولتیں بہم پہنچائیں۔
۸- جاٹ اور مسلم طبقات میں تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششوں کا آغاز کریں تاکہ مہاجرین اپنے گھروں کو لوٹ سکیں۔ اور حالات کو معمول پر لانے کے لئے یہ شرط نہ رکھی جائے کہ تشدد کے ذمہ داروں کے خلاف درج مقدمات سے مظلومیندستبردار ہوجائیں۔
آپ کے نظم و نسق کی غلطیوں اور خامیوں کی وجہ سے متأثرین کی تکالیف میں اضافہ ہوا ہے۔ تشدد سے نمٹنے اور مظلومین کی بازآبادکاری کرنے میں آپ کے نظم و نسق نے جس جانبداری کا مظاہرہ کیا ہے وہ فسادیوں کے تشدد سے کسی طرح بھی کم نہیں ہے۔ 
اسی کے ساتھ ہم نے اترپردیش میں مسلم لیڈروں کی کارکردگی کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں کیونکہ مصیبت کی اس گھڑی میں وہ کھرے نہیں اترے ہیں۔ 
ان مجوزہ اقدامات کے ذریعہ آپ نظم و ضبط کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔ اس طرح کے تیز اقدامات کے ذریعہ ہی آپ یوپی میں حکومت کی موجودگی کا ثبوت دے سکتے ہیں اور دنیا کو جمہوریت اور غنڈہ راج کے فرق کو بتا سکتے ہیں۔
احسن خان 
صدر انڈین امیریکن مسلم کاؤنسل (IAMC)
مارٹن گروو، الینوای، امریکہ

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔