.

.
تازہ ترین
کام جاری ہے...

مسلم مجلس مشاورت کی مرکزی مجلس میں ملی، ملکی اور بین الاقوامی مسائل پر غور و خوض

منگل, فروری 18, 2014
مسلم مجلس مشاورت کی مرکزی مجلس میں ملی، ملکی اور بین الاقوامی مسائل پر غور و خوض
نئی دہلی : ۱۸؍فروری ۲۰۱۴: آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کی مرکزی مجلس کا اجلاس مرکزی دفتر میں صدر مشاورت ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کی صدارت میں۱۸؍فروری بروز دوشنبہ منعقدہوا۔یہ موجودہ سال اور نئی میقات کا پہلا اجلاس تھا۔ اجلاس میں مرکزی مجلس کے مندرجہ ذیل ممبروں نے شرکت کی : پروفیسراخترالواسع، جناب سیدثمرحامد، جناب شیخ منظوراحمد، جناب معصوم مرادآبادی(جنرل سکریٹری)، جناب محمد فیاض قاسمی، ڈاکٹرانوارالاسلام، مولانا جنیداحمدبنارسی، جناب محمداحمد، جناب اعجازاحمداسلم، گروپ کیپٹن محمد انور، جناب محمدیوسف، جناب نصرت علی، جناب عبدالعزیز(کلکتہ)، ڈاکٹرمسعود احمد(علیگڑھ)، ڈاکٹرایم آر اے حق، ڈاکٹرجاوید جمیل، ڈاکٹرسیدفاروق، پروفیسرایس ایم یحيٰ، جناب رشیداحمدخان آئی اے ایس (ریٹائرڈ)، جناب سیدمنصور آغا، پروفیسرقاضی زین الساجدین، جناب نوید حامد، جناب ایس ایم وائی ندیم، ڈاکٹرعبیدعاصم اقبال، پروفیسرحبیب الرحمٰن، ڈاکٹرسید احمدضان، ڈاکٹرعزیراحمدقاسمی، جناب راحت محمودچودھری، جناب مجتبیٰ فاروق، جناب کمال فاروقی، جناب الیاس ملک، پروفیسرمحمد سلیمان(نائب صدر)، حافظ رشیداحمد چودھری(نائب صدر)، جناب محمدجعفر(نائب صدر)، جناب احمد رشید شروانی(سکریٹری جنرل)،  مفتی عطاءالرحمن قاسمی(جنرل سکریٹری) ، ةبفه جناب سید شہاب الدین اور جناب عبدالخالق۔

اجلاس نے مشاورت کے تنظیمی مسائل کے علاوہ ملی،ملکی اور بین الاقوامی حالات پر غور و خوض کیا  ۔  اجلاس میں مشاورت کی پچھلی میٹنگ کے بعد وفات پانے والی اھم شخصیات کو یاد کیا گیا، ان کے لئے دعائے مغفرت کی گئی اور ان کے اہل خاننہ ، متعلقین اور ملت سے تعزیت کی گئی بالخصوص داؤدی بوہرہ فرقہ کے 52ویں داعی مطلق سیدنا محمد برہان الدین جو 102سال کی عمر میں 17جنوری کوممبئی میں وفات پاگئے، غلام حسین کیف نوگانوی، حالات حاضرہ کے مبصر، اردو شاعر اور اخباروں کے مراسلہ نگار جو ناگپور میں 11جنوری کو وفات پاگئے، سید مظفرحسین برنی معروف سابق سول افسر، مصنف و ادیب، قومی اقلیتی کمیشن کے سابق چیرمین اور کئی ریاستوں کے سابق گورنرجو بعمر 90 سال 8فروری کو دہلی میں وفات پاگئے، حکیم محمد محترم عثمانی، معروف یونانی طبیب، کل ہند یونانی طبی کانگریس کے بانی رکن ،جو دہلی میں 8دسمبر کو وفات پاگئے، ڈاکٹر کمال صدیقی، معروف اردو شاعر ، ادیب، محقق، تنقید نگار اور ماہر غالبیات جن کا انتقال 23دسمبر2013کو دہلی میں ہوا ، ڈاکٹر مظہرالحق علوی، اردوناول نگار ، ڈرامہ نویس اور درجنوں کتابوں کے مترجم جوا 17دسمبر کو 90سال کی عمر میں احمدآباد میں وفات پاگئے، فلمی اداکار ، ٹی وی فنکار اور سماجی کارکن فاروق شیخ جن کا 14دسمبر کو دبئی میں اچانک انتقال ہوگیا، جناب عشرت علی صدیقی، بزرگ صحافی اور روزنامہ’’ قومی آواز‘‘ کے سابق مدیرجو لکھنؤ میں بعمر94سال، 2جنوری کو وفات پاگئے اور مولانا فرید الزماں کیرانوی صدر تنظیم ابنائے قدیم دارالعلوم دیوبندجو 
۱۴ فروری کو وفات پاگئے۔
اجلاس میں ملی ، ملکی اوربین الاقوامی صورت حال پر غور کرکے مندرجہ ذیل قراردادیں پاس کی گئیں:
مشاورت دھڑوں کا انضمام
ممبران نے متفقہ طور پر پچھلے سال اکتوبر میں  مشاورت کے دونوں دھڑوں کے انضمام کو سراہا اور ان سب لوگوں کو خراجِ تحسین ادا کیا جن کی کوششوں سے یہ کام عمل میں آیا ہے۔

فرقہ ورانہ فسادات
عام انتخابات سے پہلے ملک کے مختلف حصوں میں فرقہ ورانہ فسادات کا سلسلہ جاری ہے۔ کل ہند مسلم مجلس مشاورت تمام ریاستی سرکاروں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ ہندتووا عناصر کی ان سرگرمیوں سے چوکنا رہیں جوہندو ووٹ حاصل کرنے کے لئے فرقہ ورانہ فسادات کراکے معاشرے میں دھڑے بندی کراتی ہیں۔ مشاورت الیکشن کمیشن سے بھی اپیل کرتی ہے کہ وہ ایسی تمام پارٹیوں اورشخصیتوں کے الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی لگائے جو سیاسی مفاد کے لئے معاشرے میں نفرت پھیلاتی ہیں۔ یہاں مشاورت دکھ کے ساتھ اس بات کو درج کرتی ہے کہ یوپی اے سرکار نے متعدد وعدوں کے باوجود فسادمخالف بل پاس کرنے کے سلسلے میں صرف رسمی کارروائی کی جس کی وجہ سے موجودہ پارلیمنٹ میں بھی 2005سے تیارشدہ بل پاس نہیں ہوسکا۔ مشاورت ان تمام نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی مذمت کرتی ہے جنہوں نے اس بل کو پارلیمنٹ میں پاس نہیں ہونے دیا۔

آباد ی کا تناسب بدلنے کے لئے فسادات
صدیوں سے دیہی علاقوں میں آباد مسلمانوں کو گھر بدر کرکے آبادی کا تناسب بدلنے کے لئے فسادات کے حربہ کے استعمال پر مسلم مجلس مشاورت سخت تشویش اور ناپسندیدگی کا اظہار کرتی ہے۔مرکز اور ریاستی سرکاروں کو اپنے تمام اختیارات بروئے کار لاکر اس مجرمانہ سرگرمی کو روکنا چاہئے اور جو لوگ بھی اس انتہائی خطرناک سازش کی پشت پر ہیں ،ان کو سخت سزائیں دی جانی چاہئیں اور ان کو الیکشن میں حصہ لینے کے حق سے محروم کیا جانا چاہئے۔آبادی میں تناسب کی ایسی جبری تبدیلی آسام اور گجرات میں لائی جاچکی ہے، جہاں تقریبا 60,000افراد ابھی تک اپنے آبائی گاؤوں کو نہیں لوٹ سکے ہیں ۔ مظفرنگر اور شاملی کے اضلا ع میں بھی یہی ہوا ہے ،جہاں تقریبا 20,000 افراد اب بھی انتہائی خراب حالات میں عارضی کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔

وقف ڈولپمنٹ کارپوریشن
تاخیر سے ہی سہی، نیشنل وقف ڈویلپمنٹ کارپوریشن کا قیام عمل میں آگیا ہے۔ اس کے نتیجہ میں وقف املاک کا اصل فائدہ مسلم فرقہ کو پہنچنے کی توقع ہے لیکن اس اسکیم کی تفصیلاتجانے بغیر اس کی افادیت کے بارے میں رائے قائم کرنا مشکل ہے۔ اس لئے حکومت کو چاہئے کہ جلد از جلد اس مجوزہ کارپوریشن کی تفصیلات جاری کرے اور اس تأثر کو دور کرے کہ اس کارپوریشن کا فائدہ تمام اقلیات کو ہوگا کیونکہ موقوفہ جائدادیں مسلمانوں کے فائدے کے لئے ہیں۔ اسی کے ساتھ مشاورت خبردار کرتی ہے کہ یہ کارپوریشن بھی دیگر پبلک سیکٹر اداروں کی طرح غیرمتحرک ہوکر نہ رہ جائے اور وقف املاک پر سرکاری قبضے برقرار رکھنے کا چور دروازہ نہ بن جائے۔ کارپوریشن کو کا میاب بنانے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی انتظامیہ میں سنجیدہ اور باوقار مسلم افراد اور تنظیموں کی مناسب نمائندگی ہونی چاہئے۔

سیمی پر پابندی
آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت ایس آئی ایم پر مزید پانچ سال کے لئے پابندی میں توسیع کی مذمت کرتی ہے۔ہرچند کہ اس تنظیم کے کارکنوں کے کسی دہشت گرد سرگرمی میں ملوث ہونے کا کوئی نیا ثبوت نہیں ہے تب بھی یہ پابندی عائد کی گئی ہے۔ متعدد کیسوں میں ماخوذدرجنوں سیمی کارکن عدالتوں سے بری کئے جا چکے ہیں، تاہم اس پابندی کو اس کے سابق ارکان اور مسلم نوجوانوں کو نئے کیسوں میں پھنسانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان حقائق کے باوجود اس تنظیم پر عائد پابندیوں کے سابق احکامات کے خلاف عذرداریاں ابھی تک سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں۔ سپریم کورٹ کاواضح حکم ہے کہ کسی ممنوعہ تنظیم کا سابق ممبر ہونا کسی کو گرفتار کرنے کا کافی جواز نہیں ہے ،پھر بھی سیکیورٹی ایجنسیاں مسلسل سیمی کے سابق ممبران کو ہراساں کرتی رہتی ہیں اور ان کا پیچھے پڑی رہتی ہیں۔ مسلم مجلس مشاورت کا مشاہدہ ہے کہ سیمی پر پابندی کی توسیع تو مستعدی سے کی جاتی رہتی ہے ، جبکہ سناتن سنستھا، ابھینو بھارت، بجرنگ دل اور سری رام سینا جیسی بھگوا دہشت گرد تنظیموں کو چھوا تک نہیں جاتا ۔ یہاں تک کہ مرکزی حکومت نے ابھینو بھارت پر پابندی عائد کرنے کی مہاراشٹرا سرکار کی سفارش کو بھی مسترد کردیا۔ اس سے بھگوا دہشت گردی کے معاملے میں مرکزی حکومت کے جانبدارانہ رویہ کی قلعی کھل جاتی ہے۔

مودی اور گجرات فسادات
مودی اور ان کی دفاع کرنے والے برابر یہ دعوا کررہے ہیں کہ عدالت نے ان کو کلین چٹ دیدی ہے چنانچہ اب 2002کے گجرات فسادات میں ان کے ملوث ہونے کا ذکر کرنا توہین عدالت ہے۔ یہ بات حقائق کے منافی ہے۔ یہ مبینہ کلین چٹ ان کو ایس آئی ٹی نے دی ہے ،جس پر اس وجہ سے سخت تنقید ہورہی ہے کہ اس نے مودی کے ملوث ہونے کی پختہ شہادتوں کو نظرانداز کردیا۔ گلبرگ سوسائٹی کیس میں ایک مجسٹریٹ کے فیصلے کے خلاف ذکیہ جعفری نے ہائی کورٹ میں جانے کا فیصلہ کیا ہے ۔مودی اس وقت تک ملزم رہیں گے جب تک عدالت عالیہ ، جس نے ان کو ’’نیرو‘‘ سے تعبیر کیا تھا، ان کو پاک صاف قرار نہیں دے دیتی۔ مودی نے نہ صرف یہ کہ سرگرمی کے ساتھ فساد میں معاونت کی، بلکہ ملزمان کے خلاف ایف آئی آر خارج کرانے ، مقدمات واپس لئے جانے اور ان کی پشت پناہی کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ علاوہ ازیں انہوں نے متاثرین کو راحت اور انصاف سے انکارمیں بھی سرگرم کردار ادا کیا۔بھگوا پارٹی کا ایسے شخص کو اپنا وزیر اعظم کا امید وار بنانا، ہندتووا کے علم برداروں کے اخلاق و اقدار سے عاری ہونے اور سیاست میں موقع پرستی کو عیاں کرتا ہے۔

جموں و کشمیر میں فوجی جرائم
پتھری بل فرضی انکاؤنٹر کے ملزم فوجی افسران پرعائد الزامات خارج کردینے کے ایک فوجی کورٹ آف انکوائری کے اقدام نے ایک بار پھر عیاں کردیا ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے شمال مشرقی ریاستوں اور کشمیر میں نافذ ’اے ایف ایس پی اے‘ AFPSA ایک غیر منصفانہ قانون ہے۔ اس قانون کے تحت فوجی افسران کوان کے تمام غیر قانونی اقدامات کے لئے تحفظ ملا ہوا ہے۔ پتھری بل کے فرضی انکاؤنٹر میں فوجیوں نے پانچ بے قصور کشمیریوں کو اغوا کرکے ہلاک کردیا تھا اور یہ دعوا کیا تھا کہ مقتولین 20مارچ سنہ 2000کو چھتی سنگھ پورا (کشمیر)میں 34سکھوں کے قتل میں ملوث ملی ٹنٹ تھے۔ حالانکہ سکھوں کا قتل بھی سازش کے تحت ہوا تھا،جس میں مبینہ طور سے فوجی ملوث تھے۔ سازش کا مقصد یہ تھا کہ امریکی صدر بل کلنٹن کو، جو ہند کے دورے پر آرہے تھے ، یہ تاثر دیا جاسکے کہ کشمیر میں دہشت گردی کی صورت حال کس قدر سنگین ہے۔ ایک ایسے واضح معاملہ میں الزمات کا خارج کیا جانا، ایک مرتبہ پھر اس مطالبہ کو تقویت پہنچاتا ہے کہ غیر جمہوری اور عوام دشمن قانون ’’اے ایف ایس پی اے‘‘ کو فوراً ہٹایا جائے۔

عیسائی اقلیت پر تشدد
مسلم فرقہ کے علاوہ ہندتووا عناصر ملک میں عیسائی اقلیتی فرقہ کو بھی مسلسل تشدد کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ جسٹس (سبکدوش) مائکل سلدانا کی سربراہی میں عیسائی چرچ نے حال میں جو رپورٹ تیار کی ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ ملک بھر میں سنہ 2013کے دوران 4000عیسائیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ 19ریاستوں میں 200عیسائی مخالف واقعات میں تقریبا 400 مذہبی اور سماجی رہنماؤں پر حملے ہوئے۔ اس صورتحال کا تقاضا ہے کہ مرکزی اور ریاستی سرکاریں سنگھ پریوار کی ان ذیلی تنظمیوں کے خلاف سخت کاروائی کریں جو ان کھلی اور چھپی مجرمانہ سرگرمیوں کو انجام دے رہی ہیں۔

ہندوتوادہشت گردی
آرایس ایس اورہندتووا دہشت گردی کے درمیان کا تعلق صاف طور سے ظاہر ہے اور اب اس کا اقرار بھی کیا جانے لگا ہے۔ وزارت داخلہ اور یکے بعد دیگرے دو مرکزی وزرائے داخلہ برسرعام ’’بھگوادہشت گردی‘‘ اور اس سے ملک کے سیکولر جمہوری نظام کو لاحق خطرے کا اعتراف کرچکے ہیں۔ اب ’’کارواں ‘‘رسالہ کو دئے گئے حالیہ انٹرویو میں سوامی اسیمانند کے یہ تسلیم کرلینے کے بعدکہ آرایس ایس کے چوٹی کے رہنما بھگوا دہشت گردی کی تلقین اور مالی امداد میں براہ راست ملوث رہے ہیں، مرکزی وزارت داخلہ پریہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پوری سنجیدگی کے ساتھ اس خطرے کے خلاف موثر اقدام کرے اور اس میں ملوث چوٹی کے لیڈروں کو گرفتار کرے نیز دیگر فرقوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں سرگرم تنظیموں پر پابندی عائد کرے۔

عام آدمی پارٹی
مشاورت عام آدمی پارٹی کے ظہور کی ترحیب کرتی ہے اور اسے ایک سیکولر متبادل سمجھتی ہے لیکن عام آدمی پارٹی جو کرپشن کے بارے میں صاف ذہن رکھتی ہے، فرقہ واریت کے بارے میں صاف نہیں ہے اور 1984 کے سکھ مخالف فسادات کی جانچ کے لئے SIT کی مانگ کرنے والی پارٹی فسادمخالف بل، نقلی انکاؤنٹرز اور دہشت گردی کے نام پر مسلم نوجوانوں کی گرفتاری پر خاموش ہے۔ پارٹی کو طاقتور متبادل بننے کے لئے ان مسائل کے بارے میں واضح رویّہ اختیار کرنا ہوگا۔

فلسطین
اوباما کی سربراہی میں امریکا اپنے مفاد کی خاطر مسئلہ فلسطین کو دفن کرنے کے لئے جی توڑ کوشش کررہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری ایک ایسے منصوبے کی تائید حاصل کرنے کی غرض سے تل ابیب اور عرب ممالک کی راجدھانیوں کے چکر لگارہے ہیں جو خالصتاً اسرائیل کے حق میں ہے۔ اس منصوبے کے تحت فلسطین کو ایک غیر مسلح اور مفلوج ’’ریاست ‘‘کا درجہ دینے کے عوض غرب اردن کا ناجائزطور سے ہتھیایا ہوا رقبہ، جس پر غیر قانونی طور سے گھنی یہودی آبادیاں بسادی گئی ہیں، عرب یروشلم اور مسجد اقصیٰ کا ایک حصہ اسرائیل کے حوالے کردینے اور فلسطینی تارکین وطن کی گھرواپسی کے مطالبے کوہمیشہ کے لئے ختم کردینے اوران کو ان کی رہائش کے موجودہ مقامات پر بسانے کی تجویز یں شامل ہیں۔ یہ فلسطین کے مفادات کو کوڑیوں میں نیلام کردینا ہے۔ مسلم مجلس مشاورت اقوام متحدہ اوردنیا بھر کے تمام امن و انصاف پسند ممالک سے اپیل کرتی ہے کہ وہ ظلم و زیادتی کے مارے فلسطینی عوام کو انصاف دلانے کے لئے اسرائیل کا بائیکاٹ کریں اور دباؤ ڈالیں کہ وہ فلسطین کے اس کم سے کم مطالبہ پر آمادہ ہو کہ فلسطینی عوام کو امن و عزت اور عافیت کے ساتھ غرب اردن اور غزہ میں ما قبل 1967 سرحدوں میں رہنے دیا جائے۔

مصر
جنرل السیسی کے قیادت میں، جنہوں نے اب خود اپنا منصب بڑھا کر فیلڈ مارشل کا تمغہ لگا لیا ہے، مصر پر قابض فوجی ٹولے نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے اور ایک ایسا جانبدارانہ آئین مشتبہ ریفرنڈم کراکے منظور کرالیا ہے جس میں شہری حقوق کو انتہائی محدود کردیا گیا ہے اور فوج کو غیر معمولی اختیارات اور مکمل خود مختاری دے دی گئی ہے ۔ ملک کی اصل عوامی طاقت کو ’’دہشت گرد‘‘ْ ٹھہرادیا گیا ہے اور ملک کی تاریخ میں جمہوری طور پر منتخب پہلے صدر کو عجیب و غریب الزامات لگاکر عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کردیا گیا ہے۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت اس الٹ پھیر میں مصر کے نام نہاد’’ لبرل ‘‘ لیڈروں کی مذمت کرتی ہے ،جنہوں نے جمہوری طور پر منتخب اعتدال پسند صدر کے مقابلے میں فوجی آمریت کو ترجیح دی۔ مشاورت ان مغربی طاقتوں اور خلیجی ممالک کی بھی مذمت کرتی ہے، جنہوں اقتدار پر فوجی تسلط کو تسلم کیا اور اس کو برقرار رکھنے اور مصر پر اپنی گرفت مضبوط کرنے میں مدد کی۔مشاورت محسوس کرتی ہے کہ مصر اور دیگر عرب ممالک میں ابال آرہا ہے اور ایک اورہمہ جہتی عوامی تحریک راہ پارہی ہے جو غیرملکی طاقتوں کے مقامی ایجنٹوں کا صفایا کردے گی۔

شام
شام میں گزشتہ تین سالوں سے خانہ جنگی جاری ہے جس میں اب تک 125,000 شامی باشندے مارے جاچکے ہیں، 95لاکھ افراد خانہ بدوش ہوگئے ہیں اور تقریباً پورا ملک تباہ و برباد ہوچکا ہے۔ اس کے باوجود دمشق کی فرقہ پرست(sectarian) آمرانہ حکومت جنیوا کانفرنس 2012 کی اپنی یقین دہانیوں اور وعدوں تک سے مکر رہی ہے جس میں اس نے قبول کیا تھاکی جلدہی مکمل اختیارات کی حامل انتقالی حکومت قائم کی جائے گی۔ حالیہ جنیوا کانفرنس میں کوئی بھی رعایت دینے سے انکارکر کے دمشق میں قابض نظام شام پرتباہی کا مزید بوجھ ڈال رہا ہے۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت ’’اسلامی مملکت شام و عراق‘‘ (داعش) جیسی دہشت گرد تنظیموں کی مذمت کرتی ہے جو شام میں سرگرم ہیں اور عوام کی جائز جدوجہد کو ناکام کرنے کے درپے ہیں۔ مشاورت تمام عالمی طاقتوں، خصوصاً یو این او ،تنظیم عالم اسلامی اور عرب لیگ سے اپیل کرتی ہے کہ شام کی فرقہ پرست حکومت کوحقیقت پسندی سے کام لینے اور مزید خون خرابہ کے بغیر اقتدار عوام کے حوالے کردینے پر آمادہ کریں۔علاوہ ازیں دمشق کے حکمرانوں کو عالمی عدالت انصاف سے ان کے جرائم کے لئے سزا دلائی جائے ،جن میں سرکاری تحویل میں 11,000 افراد کی ہلاکت کا جرم بھی شامل ہے۔

بنگلہ دیش
حسینہ واجد کے زیر حکومت بنگلہ دیش تیزی سے ایک پارٹی کی آمریت میں تبدیل ہورہا ہے۔یہ پارٹی حال ہی میں بھاری دھاندلیوں اور اپوزیشن کے بائی کاٹ کے درمیان منعقدہ الیکشن میں خود کو فاتح اعلان کرچکی ہے۔اس نے اپوزیشن کو کمزور کرنے کی غرض سے ایک مشکوک اور جانبدارانہ ٹربیونل کے سامنے مقدمات قائم کرکے جماعت اسلامی بنگلادیش کے خلاف بھی انتقامی مہم چھیڑ رکھی ہے۔ یہ نہایت افسوس کی بات ہے کہ حکومت ہند ان غیرجمہوری اقدامات کی تائید کررہی ہے۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت حسینہ واجد کومشورہ دیتی ہے کہ وہ اس انتقامی مہم کو ترک کریں، جماعت اسلامی بنگلہ دیش پر عائد غیر منصفانہ پابندی کو ختم کریں ، سیاسی فائدے کے لئے قائم مشکوک ٹربیونل کو کالعدم کریں جس کا مقصد جماعت اسلامی کو ختم کرنا ہے اور اپوزیشن پارٹیوں کو معمول کے مطابق کام کرنے دیں۔

وسط افریقی جمہوریہ
آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت وسط افریقی جمہوریہ میں مسلمانوں کے مسلسل اجتماعی قتل کی واراتوں پرعالمی اداروں، بڑی طاقتوں اور مسلم ممالک و تنظیموں کی خاموشی پر حیرت اور مایوسی کا اظہار کرتی ہے۔ وہاں سے برابریہ خبریں آ رہی ہیں کہ عیسائی ملیشیا انسان خوری کی حد تک گر گئی ہیں اور اپنے شکار مسلمانوں کاگوشت تک کھارہی ہیں۔مسلم ممالک اور تنظیم عالم اسلامی کی خاموشی پریشان کن ہے۔ وسط افریقی جمہوریہ میں صدر کے منصب پر ایک مسلمان کے انتخاب کی وجہ سے مسلم اقلیت کے خلاف عیسائیوں میں دیوانگی کا عالم ہے۔ اس المیہ میں وسط افریقی جمہوریہ میں موجود فرانسیسی فوج کا ہاتھ ہے جس نے مسلمانوں سے اسلحے چھینے اور عیسائی میلیشیا کے حملوں کو
...

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔