.

.
تازہ ترین
کام جاری ہے...

یہ جنونِ عشق کے انداز۔۔۔۔۔۔

جمعہ, دسمبر 20, 2013

 یہ تصویر دیکھ کر اگر آپ کو بھی کوئی شعر یا مصرع یاد آیا ہو تو ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم اسے ان صفحات پر شائع کر دیں گے۔اگر آپ ٹوئٹر استعمال کرتے ہیں تو اپنے شعر کے ساتھ اپنا ٹوئٹر ہینڈل ضرور بھیجیے۔
اس تصویر کی مناسبت سے ہمارے قارئین نے ہمیں بہت زیادہ اشعار بھیجے ہیں۔ ہم زیادہ سے زیادہ اشعار کو شائع کرنے کی کوشش کریں گے اور یہ صفحہ اپ ڈیٹ ہوتا رہے گا۔

روزاول سے جو ٹیڑھی ہے اسے کیا کیجیے

کس طرح اس زلف کے خم کوکوئی سیدھا کرے

ختم تم پر ہوگئی ہے آج فتنہ پروری

شر کسے کہتے ہیں کوئی آپ سے سیکھا کرے

مصطفیٰ عزیز آبادی، لندن

صوفی کی طریقت میں فقط مستیِ احوال

ملا کی شریعت میں فقط مستیِ گفتار

جویریہ صدیق، اسلام آباد

گستاخ اکھیاں کتھے جا اڑیاں

نامعلوم

آئینِ جواں مرداں، حق گوئی و بیباکی

اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

حمیداللہ خٹک، لاہور

عشق کو فریاد لازم تھی سو بھی ہو چکی

اب ذرا دل تھام کر فریاد کی تصویر دیکھ

فاطمہ رانا، دمام
وہ سرور اول اول، یہ غرور آخر آحر

وہ کرم بھی تھا ضروری، یہ ستم بھی لازمی ہے

سرفراز علی اعوان، سکھر

یہ‘ آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام

وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

عبدالملک مگسی، جھل مگسی، شعیب، وقار احمد، اسلام آباد

غرض کفر سے ہے نہ مطلب ہے دیں سے

تماشائے دیر و حرم دیکھتے ہیں

محمد عمران نثار، مری

اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں

مجھے ہے حکمِ اذاں لا الہ الا اللہ

محمد

دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ نہ تھا

اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا

جان، پاکستان

خرد کا نام جنوں رکھ دیا، جنوں کا خرد

جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے

عشوہ، پاکستان

لکھوں کس کے نام میں یہ ، جو الم گزر رہے ہیں

میرے شہر جل رہے ہیں، میرے لوگ مر رہے ہیں

عدنان، بہاولپور

میر کیا سادہ ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب

اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

عدنان، بہاولپور

یہ مسکراتے تمام سائے ہوئے پرائے تو کیا کرو گے

طاہرہ، اسلام آباد

وہی قاتل، وہی شاہد، وہی منصف ٹھہرے

اقربا میرے کریں، خون کا دعویٰ کس پر

ہارون جمیل، لندن

یہ رسمِ یاروچلی ہے کب سے ستم کشوں کی یہ کیا ادا ہے؟

حامد، راولپنڈی

دینِ ملا فی سبیل اللہ فساد

انجم اقبال، امریکہ، جلال الدین مغل، وادیِ نیلم، کشمیر

اتنی نہ بڑھا پاکیِ داماں کی حکایت

دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ

سجاد کھوکھر، فیصل آباد

عجیب تیری سیاست، عجیب تیرا نظام

یزید سے بھی مراسم، حسین کو بھی سلام

ذاکر، آسٹریلیا

جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

عامر عطا اعوان، میانوالی

ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ

راولپنڈی

بنے ہیں اہلِ ہوسئ مدعی بھی منصِف بھی

جاوید شیخ، یونان

کردار و گفگتو میں صداقت نہیں رہی

نعیم، کراچی

کروں گا کیا جو سیاست میں ہو گیا ناکام

مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

رزاق اے، یوکوہوما، جاپان

بتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے نومیدی

مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے

اسماعیل، بحرین

کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن

کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی

ناصر، راولپنڈی

آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

امتیاز، مسقط، نعیم فاروقی، لاہور، غفور خان، مردان

نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم

نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے

ڈاکٹر سدرہ طارق، سرگودھا، شاہین، ملتان

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

شاہد رضا، اوکاڑہ، پاکستان

گھاؤ دشمن کے بھول جاؤ گے

دوستوں کی زبان کھلنے دو

محسن علی، لیاقت پور

اس کو کرو کمال اتا ترک کے سپرد

ملا کو آزمانے کے بعد آزمانا کیا

داؤد اسماعیل، اوڈمنٹن، کینیڈا

متاع دین و دانش لٹ گئی اللہ والوں کی

یہ کس کافر ادا کا غمزۂ خوں ریز ہے ساقی

ذیشان انصار، لندن، یُوکے

آپ ہی اپنی اداؤں پر ذرا غور کریں

ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی

فرخ سیر، صوابی، پاکستان

حسرتِ زلفِ یار ہی میں تراب

شیخ ریشِ دراز رکھتے ہیں

عطا تراب، اسلام آباد، پاکستان

یہ جو بڑھتی ہوئی جدائی ہے

شاید آغازِ بے وفائی ہے

راج محمد، پشاور، پاکستان

یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر

وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

اسرار احمد، سدنوتی، تراڑکھل

یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائے یہود

حمیر عامل، لندن، یوکے

سجدہ خالق کو بھی، ابلیس سے یارانہ بھی

حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگو گے

طیب، لندن، یو کے

اسی کا شہر، وہی مدعی، وہی منصف

ہمیں پتہ تھا، ہمارا قصور نکلے گا

فضل اللہ مہمند، پشاور، پاکستان

یہ کن نظروں سے تو نے آج دیکھا

کہ تیرا دیکھنا، دیکھا نہ جائے

محمد نعمان، لندن، برطانیہ

یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے

وہ بت ہے یا خدا دیکھا نہ جائِے

وقاص گوہر، کراچی، پاکستان

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

نصراللہ خان، دبئی، متحدہ عرب امارات

وہ کہاں تم پہ ہیں مرتے، مرتے ہیں ان چار پر

ناز پر، انداز پر، رخسار پر، گفتار پر

بشرہ حسین، پشاور، پاکستان

نظر آخر نظر ہے، بے ارداہ اٹھ گئی ہوگی

نامعلوم

عرش والے مری توقیر سلامت رکھنا

فرش کے سارے خداؤں سے الجھ بیٹھا ہوں

نامعلوم

بے اعتدالیوں سے سبک سب میں ہم ہوئے

جتنے زیادہ ہوگئے، اتنے ہی کم ہوئے

ڈاکٹر الطاف الحسن، فیصل آباد، پاکستان

ہم تو ڈوبے ہیں صنم، تم کو بھی لے ڈوبیں گے

وقاص خان، ٹیمپا، فلوریڈا

تم نے ہر عہد میں، ہر قوم سے غداری کی

محمد عبید الرحمان، سڈنی، آسٹریلیا

مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے

وہ قرض چکائے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے

نجم القادر، اسلام آباد، پاکستان

کیوں خود کشی کا سوچتے رہتے ہو رات دن

کیا کوچۂ جمال میں قاتل نہیں رہے

ضیف سید، راولپنڈی، پاکستان

کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب

شرم تم کو مگر نہیں آتی

محمد علی، کراچی، پاکستان، وسیم عباس کاظمی، اسلام آباد، پاکستان، شاہ، فرانس، سنتوش کمار، سوئی

عشق قاتل سے بھی، مقتول سے ہمدردی بھی

یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا

عبدالقادر، خضر کلاسرہ اسلام آباد پاکستان، فاروق طارق، خبر، سعودی عرب

تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟

عدیلہ، اسلام آباد ، پاکستان

اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی

عامر

ہاں میں نے لہو اپنا گلستاں کو دیا ہے

مجھ کو گل و گلزار پہ تنقید کا حق ہے

منصور بگٹی، ڈیرہ بگٹی، پاکستان

ہم طالبِ شہرت ہیں ہمیں نام سے کیا کام

بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا

فہیم اشرف، فورٹ عباس، پاکستان،طارق جون، دوحہ، سہیل امجد، پیرس

ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق

یہی رہا ہے ہمیشہ قلندروں کا طریق

عبید، کراچی ،پاکستان

نفرت کی یہ فصل تماری اک دن رنگ وہ لائے گی

ہاتھ کی گرہ دانتوں سے بھی تم سے کُھل نہ پائے گی

مدثر احمد، اٹک، پاکستان

دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض

موسیٰ ، عراق

میں اور اندیشہ ہائے دور دراز

ولی رحمت، چترال، پاکستان

جنونِ عشق کی رسمِ عجیب کیا کہنا

زریاب شیخ، لاہور، محمد یاسین، محمد بشارت، جدہ

خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں

ضیا شوکت، لاہور، پاکستان
 بشکریہ بی بی سی اردو

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔