.

.
تازہ ترین
کام جاری ہے...

عقل بڑی کہ بھینس

جمعہ, دسمبر 20, 2013
عامر احمد خان، ایڈیٹر بی بی سی اردو
حال ہی میں بی بی سی اردو کے محمد حنیف نے کراچی کے انڈس ویلی سکول آف آرٹ اینڈ آرکیٹیکچر کی بیسویں تقسیمِ اسناد کی تقریب میں صدارتی خطاب دیا۔ اس میں بات پاکستان میں آرٹ اور آرکیٹیکچر کے مستقبل کی بھی ہوئی انڈس ویلی سکول کے ہونہار طلبعلموں کے مستقبل کی بھی۔
لیکن اسی خطبۂ صدارت میں کہیں سے ایک بھینس بھی آبھٹکی، علامہ اقبال کا بھی ذکر ہوا، جزا سزا کے معاملات پر بھی رائے زنی ہوئی اور اس معاشرے کا معاملہ بھی اٹھایا گیا جس میں اس نئی پود نے پلنا ہے۔
میری خواہش ہے کہ ہمارے ساتھی محمد حنیف کی یہ باتیں بی بی سی اردو کے ذریعے آپ تک بھی پہنچیں۔ ظاہر ہے کہ کسی بھی صدارتی خطاب کے صدارتی ڈیل ڈول کے لیے ضروری ہے کہ وہ مختصر نہ ہو۔ لہذا ہم نے ان کا یہ نسبتاً طویل مقالہ قسط وار شائع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پہلی قسط پیش خدمت ہے۔ پڑھیے، محظوظ ہویے، پسند کیجیے یا ناپسند، ہمیں اپنی رائے ضرور بھیجیے۔

بہت شکریہ کہ آپ نے مجھے گریجویشن تقریب سے خطاب کی دعوت دے کر عزت بخشی۔ ایسی عزت مجھے ایک دفعہ پہلے بھی بخشی گئی تھی اور اس کے بعد مجھے بہت ڈانٹ پڑی۔ تیس پینتیس سال قبل ایک ہائی سکول میں مجھے طلبا کے نمائندے کے طور پر خطاب کرنے کے لیے مدعو کیا گیا۔ میں نے خطاب میں ہیڈ ماسٹر صاحب کی بھینس کا ذکر کر دیا اور خطاب ختم ہوتے ہی، بلکہ کچھ اساتذہ نے تو خطاب کے دوران ہی مجھے ڈانٹنا شروع کر دیا۔
میں نے اس وقت تک تقریریں صرف مولوی حضرات کی سنی تھیں یا محلے کے سیاستدانوں کی۔ مولوی حضرات کی تقریروں میں مسلمانوں کے شاندار ماضی کا تذکرہ ہوتا تھا، بحرِظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے وغیرہ اور سیاستدان ظلم کی داستانیں سناتے تھے اور گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو کے نعرے لگواتے تھے۔
تیرہ چودہ سال کی عمر میں میرے ماضی میں کوئی شاندار کارنامے نہیں تھے، سمندر ہی نہیں دیکھا تھا اس میں گھوڑا کیسے دوڑاتے۔ سکول گاؤں میں تھا اور اس کی چار دیواری تھی نہیں تو کچھ مناسب نہیں تھا کہ میں نہ ہونے والی دیواروں کو گرانے کے لیے نعرہ لگاؤں۔ اس لیے میں نے اپنی تقریر میں اس ظلم کا ذکر کیا جو ہم پر روا رکھا جاتا تھا۔ وہ ظلم یہ تھا کہ آدھی چھٹی کے وقت جسے اس وقت تفریح بھی کہتے تھے، ہم طالب علموں کی یہ ڈیوٹی تھی کہ ہم ہیڈ ماسٹر صاحب کی بھینس کو نہلائیں۔
یہ کوئی اتنا بڑا ظلم نہیں تھا۔ ہمارے سکول میں ایکسٹرا کیوریکلر ایکٹیویٹی (غیر نصابی سرگرمی) کے نام پر صرف بھینس تھی جو سکول کے گراؤنڈ میں بندھی رہتی تھی۔ بھینس نے بھی نہلائے جانے پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ آپ لوگوں نے بھینس صرف ٹیٹرا پیک کے ڈبے میں یا نہاری کی پلیٹ میں دیکھی ہوگی۔ تو میں آپ کے علم میں اضافہ کرتا چلوں کہ بھینس اپنے جذبات کے اظہار پر یقین نہیں رکھتی، بس بیٹھی جگالی کرتی رہتی ہے۔ تو ایک طریقے سے بھینس کو نہلانے سے ہیڈ ماسٹر صاحب بھی خوش، ہم بچے بھی خوش اور یہ تو بہت بعد میں پتا چلا کہ بھینس کا انگریزی نام واٹر بفیلو ہوتا یے۔ وہ بھلی مانس آرٹ سٹوڈنٹ تو تھی نہیں کہ نہلائے جانے پر اعتراض کرتی۔
لیکن تقریر بہرحال ہم نے کرنی تھی تو یم نے بھینس کا ذکر دبے لفظوں میں کیا اور اپنی بات میں وزن ڈالنے کے لیے علامہ اقبال کا واحد شعر جو پورا یاد تھا وہ بھی پڑھ دیا۔ ہمارا اب یہ بھی خیا ل تھا کہ علامہ اقبال کے شعر کے بغیر کوئی تقریر ہو ہی نہیں سکتی۔ تو آپ بھی سنیے۔
کبھی اے نوجوان مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا بنے اک ٹوٹا ہوا تارہ
چند اساتذہ نے کہا کہ ہم نے علامہ اقبال کی بے عزتی کی ہے۔ ہیڈ ماسٹر صاحب کا خیال تھا ہم نے بھینس کی بے عزتی کی ہے۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے مائیک ہمارے ہاتھ سے چھین کر کہا کہ ’ہم نے تجھے بولنا سکھایا، تمہارے منہ میں زبان ڈالی اور تو ہم سے ہی زبان درازی کرتا ہے‘۔ اس کے بعد انہوں نے بھینس کے درجات بیان کیے۔ ہم نے یہ سبق پلے باندھ لیا اور اس کے بعد نہ کبھی تقریر کی اور نہ ہی بھینس کو نہلایا۔
آج کل کے ہیڈ ماسٹر بہت سیانے ہیں۔ ہیڈ ماسٹر نے مجھے حکم دیا کہ میں سات دن پہلے تقریر لکھ کر جمع کرواؤں جو کہ میں نے کی اور اس کے بعد سوچتا رہا کہ یا اللہ کہیں فیل تو نہیں ہوگیا۔ میری عمر میں انسان ڈانٹ صرف بیوی سے کھا سکتا ہے یا الطاف حسین بھائی سے۔
اس مقالے کی دوسری قسط پیر تئیس دسمبر کو شائع کی جائے گی۔

بشکریہ بی بی سی اردو

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔