.

.
تازہ ترین
کام جاری ہے...

مظفر نگر کے عسمت دری سے کوئی فرق نہیں پڑتا؟

اتوار, دسمبر 29, 2013

مظفر نگر : بھارتی ریاست اترپردیش کے ضلع مظفر نگر کے فسادات کو کئی مہینے ہو چکے ہیں۔ فسادات میں بے گھر ہونے والے ہزاروں لوگ اب بھی ریلیف کیمپوں میں مقیم ہیں۔ ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو خوف کے سبب اب اپنے گاؤں واپس نہیں جانا چاہتے۔
اتر پردیش کی ریاستی حکومت اور سیاسی جماعتوں نے فسادات کے بعد ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان صلح و صفائی کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی اور نہ ہی دونوں برادریوں کی جانب سے اس طرح کی کوئی اجتماعی کوشش کی گئی ہے۔
م‍ظفرنگر اور شاملی میں شدید سردی اور دھند کے درمیان ہزاروں پولیتھین کے کیمپ انسانی بے بسی اور انتظامیہ کی بے حسی کی تصویر پیش کر رہے ہیں۔بھارت میں جاری شدید سردی کی وجہ سے اب تک 50 سے زیادہ بچے موت کا شکار ہو چکے ہیں۔
مظفر نگر کے فسادات پر سیاست گرم ہے۔ کچھ عرصہ پہلے بھارتیہ جنتا پارٹی نے مودی کی ایک سیاسی ریلی میں اپنے ان ارکان اسمبلی اور رہنماؤں کی عزت افزائی کی جن پر فسادات بھڑکانے اور نفرت پھیلانے کا الزام ہے۔
دوسری جانب ریاست کی حکمراں جماعت سماجوادی پارٹی کے رہنما ملائم سنگھ یادو نے گذشتہ دنوں یہ بیان دیا کہ ریلیف کیمپوں میں جو لوگ ابھی تک رہ رہے ہیں وہ متاثرین نہیں بلکہ وہ مخالف سیاسی جماعتوں کے ایجنٹ ہیں جو ان کی حکومت کو بدنام کرنے کی سازش کا حصہ ہیں۔
پچھلے ہفتے کانگریس کے رہنما راہول گاندھی بھی اپنے مخصوص انداز میں اچانک ریلیف کیمپوں میں نمودار ہوئے۔ متاثرین کے ساتھ تصویریں بنوائیں اور یہ دانشورانہ بیان جاری کیا کہ ریاستی حکومت ان متاثرین کو واپس بسانے کے لیے مطلوبہ اقدامات نہیں کر رہی ہے۔
پچھلے کچھ دنوں سے ان کیمپوں سے فسادات کے نتیجے میں ہونے والے خوفناک واقعات سامنے آ رہے ہیں۔
ملک کے ایک سرکردہ جریدے نے مظفر نگر کے فسادات میں ریپ کے ایسے واقعات کے انکشافات کیے ہیں جو ابھی تک سامنے نہیں آ سکے تھے لیکن بھارت میں اس بارے میں ایک پر اسرار خاموشی چھائی ہوئی ہے۔
انڈیا گیٹ اور جنتر منتر پر ان کے لیے کوئی مظاہرہ نہیں ہوتا۔ کوئی ان شکستہ جسموں کے لیے اپنے ہاتھوں میں شمعیں لیے ملک کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش نہیں کرتا۔
ان کیمپوں میں مقیم متاثرین کے درد کا سلسلہ طویل ہے لیکن اس درد کو سمجھنے والا کو ئی نہیں ہے۔
بیشتر متاثرین ہمیشہ کی طرح بھارت کے غریب باشندے ہیں۔ ان میں بہت سے ایسے ہیں جن کے اپنے ان فسادات میں مارے گئے ہیں۔ وہ اپنی کہانیاں اتنی بار سنا چکے ہیں کہ انھیں اس کی مشق سی ہو چکی ہے۔ درد بھی اب جذبات سے عاری ہو چکا ہے۔
فسادات بھارت کی سیاست کا سب سے محبوب موضوع ہے۔ اگر فسادات نہ ہوں تو ملک کی سیاست پھیکی پھیکی سی لگتی ہے۔ بہت سی جماعتوں اور مذہبی تنظیموں کو مذہبی فسادات سے طاقت ملتی ہے۔
سنہ 1984 میں بھاگل پور کے فسادات، پھر سنہ 2002 کے فسادات اور اب مظفر نگر کے فسادات۔
بھارت میں عام انتخابات فریب ہیں اور وہاں کی سیاست میں بحث کے لیے یہ سب سے اچھا موضوع ہے۔

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔