.

.
تازہ ترین
کام جاری ہے...

ہم جنسی پرستی کے خلاف مذہبی رہنما وں نے مورچہ سنبھالا

اتوار, دسمبر 29, 2013


نئی دہلی : کسی مذہب میں بھی ہم جنسی کے لئے کو ئی جگہ نہیں ہے۔ ہمارا ملک ایک مذہبی ملک ہے جس کی عظیم اکثریت کسی نہ کسی مذہب کو ماننے والی اور مشرق کی قدیم روایات اور تہذیب کی حامل ہے۔ تمام مذاہب مرد اور عورت کے درمیان ازدواجی رشتوں کے ذریعہ خاندان کی تشکیل کو اہمیت دیتے ہیں جس پر نہ صرف نسل انسانی کی بقاء اورسماج میں دیر پا سکون و اطمینان کا دارومدار ہے۔ بلکہ اس سے سماج میں عورت کی ایک باوقار اور مرکزی حیثیت بھی متعین ہوتی ہے۔
        ان خیالات کا اظہار ہم جنس پرستی کے خلاف عدالت عالیہ کے فیصلہ کی تائید میں آواز بلند کرنے کے لئے جماعت اسلامی ہند کی جانب سے انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر میں مختلف مذہبی شخصیات کو ساتھ لے کر ایک عظیم الشان جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے ہندو ، مسلم ، سکھ ، عیسائی اور جین مذہب کے رہنماﺅں نے کیا۔
        جلسہ کو خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی ہند مولانا سید جلال الدین عمری نے کہا کہ یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ اس اہم اشو پر تمام مذہبی لوگ ایک جگہ جمع ہیں ،ہم سب کو مل کریہ لڑائی لڑنی ہے، جبکہ آج حالات یہ ہیں کہ سیاسی لوگ بھی اپنے سیاسی اور نظریاتی اختلافات کے باوجود ایک ساتھ مل کر حکومت بنا لیتے ہیں تو ہم مذہبی لوگ کیوں مل کر نہیں چل سکتے ۔ مولانا نے مزید کہا کہ شادی میں غیر ضروری تاخیر اور رکاوٹیں بھی جنسی بے راہ روی کا راستہ کھولتی ہیں، اس لئے معاشرہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر خصوصی توجہ دے ۔مولانا نے فرمایا کہ اسلام میں شادی کے دو مقصد بتائے گئے ہیں: ایک جنسی تسکین اور دوسرا نسل انسانی کا ارتقاء۔موصوف نے فرمایا کہ مذہب کسی بھی ایسے عمل کو منظوری نہیں دے سکتا جو انسانی ،معاشرے اور ملک کو ہلاک کرنے ولا ہو ۔
        شری گروچن صاحب ،جتھے دار آکال تخت نے کہا کہ ہم جنس پرستی بہت ہی برا کام ہے۔ سکھ مذہب میں بھی اس کو برا اور قابل سزاجرم بتایا گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ چاہے قانون اس کو جائزٹھہرا دے تب بھی مذہب اس کی اجازت ہر گز نہیں دے گا ۔ مرد کا مرد سے تعلق اور عورت عورت کے ساتھ بلکل غلط ہے ۔ دھرم کے طور طریقوںکے خلاف ہے ،جب کہ مذہب پر چل کر ہی ہم امن اورشانتی سے رہ سکتے ہیں ۔ ہم جنسی کی مخالفت اور اس کی برائیوں سے لوگوں کو واقف کرانے میں پوری سکھ برادری آپ کے ساتھ ہے ۔
        صفدر ایچ خان صاحب چیئرمین دہلی اقلیتی کمیشن نے کہا کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کام ،جو جانور بھی نہیں کرتے، آخر ا س کو انجام دینے اور اس کے لئے قانون بنانے کی کو شش کیوں کی جا رہی ہے ۔ جس ملک میں بھی اس قسم کے کام کئے جا رہے ہیں وہاں جنسی بیماریاں زیادہ ہیں
        فادر ایم ڈی تھامس صاحب نے عیسائی کمیونیٹی کے نمائندگی کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم جنسی پٹری سے اتری ہوئی ٹرین کی طرح ہے ۔ یہ ایک اخلاقی بیماری ، دماغی خرابی اور قدرت سے جنگ ہے ۔ اس کے علاج کے لئے بھی ہمیں کو شش کرنی چاہئے۔
شیعہ عالم دین محسن تقوی نے کہا کہ سماج کو ہلاکت کی جانب لے جانے کی جو کو ششیں ہو رہی ہیں ہم سب کو مل کر ان کا مقابلہ کرنا ہے ،جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو اس میں ہم جنسی حرام ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔ اس فعل کے جائز قرار دینے کے لئے جو دلائل دئے جارہے ہیں وہ بہت ہی کمزور ہیں۔
        جین مذ ہب کی نمائند گی کرتے ہوئے آچاریہ لوکیش منی جی نے کہا کہ یہ ایک عالمی سازش ہے ، نام نہاد شخصی آزادی اور حقوق انسانی کے نام پرجو لوگ جس چیز کی اجازت مانگیں گے کیا ان کو اس کی اجازت دی جائے گی ؟آج تو یہ لڑائی شروع ہوئی ہے۔ اب ہم اس کوختم کر کے ہی دم لیں گے ۔،میں پورے جین سماج کی طرف سے یقین دہانی کرا راہاہوں کہ ہم سب اس مسئلے میں آپ کے ساتھ ہیں ۔
        سناتن دھرم کی نمائند گی کرتے ہوئے جگت گرو شنکر آچاریہ شری اونکا ر آنند نے کہا کہ اکیسویں صدی میں ہم کہاں جا رہے ہیں؟ ہم ترقی کی طرف ہیں جا رہے یا بربادی کے طرف۔ ہم مذہبی لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ آگے بڑھ کر معاشرے کو صاف ستھرا اور خوب صورت بنانے کی کو شش کریں۔ ہماری کو شش ہو کہ ہماراملک ترقی کرے یہاں سکھ شانتی قائم رہے ۔ دھرم کو بچانے اگر جنتر منتر پر بھی مظاہرہ کرنا پڑے تو ہم تیار ہیں ۔
        آریہ سماج کے مایہ پرکاش تیاگی جی نے کہا کہ بہتر انسان وہ ہے جو خود بھی اچھا کام کرے اور دوسروں کو بھی اچھا کام کرنے کو کہے ۔ انہوں نے کے کہا کہ یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ آج ہمیں اس موضوع پر بات کرنی پڑ رہی ہے جس کو سننا بھی ایک شریف انسان کیے لیے ناگوار ہوتا ہے ۔

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔