.

.
تازہ ترین
کام جاری ہے...

اب مشاعرے نہیں مظاہر ے ہوتے ہیں / منظربھوپالی

اتوار, جون 01, 2014


کوئی بھی زبان محض پیسہ سے زندہ نہیں رہ سکتی ، مشہور شاعر منظر بھوپالی سے جاوید قمر کا بیباک انٹرویو


منظر بھوپالی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے ۔وہ پچھلی کئی دہائیوں سے مشاعروں کے مقبول شعراء کی صف میں شامل ہیں ‘ ان کی مترنّم آواز کانوں میںآج بھی رس گھولتی ہے ۔غزل کے ساتھ ساتھ وہ گیت کے بھی شاعر ہیں ۔حال ہی میں وہ دہلی آئے تو ہم نے اردو اور مشاعروں کے حوالہ سے ان سے گفتگو کی ، میرے سوالوں کے انہوں نے بڑی بیباکی سے جواب دیئے اور یہ اعتراف کیا کہ مشاعروں میں اردو اورشاعری کا قتل ہورہا ہے ۔ملاحظہ کریں منظر بھوپالی کا مختصرمگر انتہائی سنسنی خیز اور دلچسپ انٹرویو ملا حظہ فرمائیں ۔


س:
منظر بھائی اردو کی تازہ صورت حال سے کیا آپ مطمئن ہیں ‘ کیا یہ ترّقی کررہی ہے یا پھر بہ حیثیت زبان اس کا دائر ہ محدود ہورہاہے۔
ج:
اب سے 25سال قبل جب میں مشاعروں میں آیا تھا تو اردو کا ماحول بہت اچھا تھا لیکن اب صورت حال ویسی نہیں ہے ، دوسروں کو چھوڑیئے خو د مسلمان اپنے بچّوں کو اردو کی تعلیم نہیں دلواتے ، وہ اپنے بچّوں کو انگلش میڈیم اسکولوں میں ڈالتے ہیں ، ان کی خواہش ہوتی ہے کہ آگے چل کر ان کا بیٹا ایم بی اے یا کوئی دوسرا پیشہ وارانہ کورس کرے۔ سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں کا حال یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر میں اردو پڑھائی ہی نہیں جاتی۔اترپردیش جیسی بڑی ریاست میں کوئی اردو میڈیم اسکول نہیں ہے ظاہر ہے ایسے میں اردو کی ترقی یا ترویج واشاعت کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے ۔
س:
بہت سے سرکاری ادارے ہیں ‘ اردو اکادمیاں ہیں جو اردو کے حوالہ سے سرگرم رہتی ہیں لیکن اس کے باوجود اگر یہ افسوسناک صورت حال ہے تو کیوں؟۔
ج:
ہم کسی خاص صوبہ کی بات نہیں کریں گے بلکہ پورے ہندوستان میں اردو‘ کی حالت بہت کمزور ہے۔1972تک ایسا نہیں تھابلکہ اس دوران اردو نے بہت ترقی کی لیکن اس کے بعد جب اردو اکادمیاں قائم ہوگئیں تو اردو بہ حیثیت زبان زوال پذیر ہوگئی۔ان اکادمیوں کے ذمہ داروں کو فنڈ ملا اسے انہوں نے سمیناروں اورمتشاعروںیا کتابوں کی اشاعت پر ہی صرف کردیا ۔اردو زبان کی ترویج واشاعت کے لئے کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کیا گیا۔جبکہ ضرورت اس بات کی تھی کہ اردو کی نرسری تیارکی جاتی ۔نرسری اور پانچویں تک ایسے اسکولوں کی ضرورت تھی جہاں والدین اپنے بچّوں کو اردو کی تعلیم کے لئے داخل کرتے۔اردو میڈیم اسکولوں کی ضرورت تھی لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اس سمت میں سوچا ہی نہیں گیا ، سرکار ،اکادمیوں کو فنڈ دیکر مطمئن ہوجاتی ہے لیکن کوئی بھی زبان پیسہ سے زندہ نہیں رہ سکتی بلکہ اس کے لئے لوگوں اور خاص طور پر نئی نسل کے لوگوں میں دلچسپی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ایک زمانہ تھا کہ بچّوں کے لئے کھلونہ اور دوسرے کئی رسائل نکلتے تھے اس سے بچوں میں اردو کے تعلق سے رغبت پیدا ہوتی تھی لیکن اب لے دے کر ایک دو رسالے نکلتے ضرورہیں مگر ان کی بھی اشاعت محدود ہے۔
س:
توکیا اسی وجہ سے مشاعروں پر بھی زوال آیا ہے ۔آج کے مشاعروں کے حوالہ سے آپ کیا کہیں گے ۔کل کے اور آج کے مشاعروں میں آپ کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟۔
ج:
دیکھئے اب مشاعرے نہیں ہوتے مظاہرے ہوتے ہیں ۔اس میں شاعروں کے ساتھ ساتھ سننے والوں کا بھی قصور ہے ، کل تک لوگ ایک ایک شعر پوری توجہ اور بیداری سے سنتے تھے ۔جو شاعری پیش کی جاتی تھی وہ معیاری اور فن کے تمام معیارات پر کھری ہوتی تھی،اس وقت جو نظمیں پڑھی جاتی تھیں، وہ بھی عوام کے مسائل پر ہوتی تھیں لیکن اب مارکیٹنگ ہورہی ہے کبھی ’ ماں ‘ کو موضوع بناکر سامعین کا جذباتی استحصال ہوتا ہے تو کبھی مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے والی شاعری سناکر داد وصولی جاتی ہے۔
س:
آخر یہ زوال کیوں آیا اور اس کے لئے ذمہ دار کون ہے ؟۔
ج:
اس میں شعراء اور سامعین دونوں کا ہاتھ ہے ۔ہمارے شاعروں نے سستی شہرت حاصل کرنے کی کوشش میں سطحی اور غیر معیاری شاعری کو فروغ دیا تو سامعین نے خراب شعروں کو دادوتحسین سے نواز کر اس پر اپنی پسندیدگی کی مہر لگادی ، اس سے یہ ہوا کہ شاعری سے دلچسپی اور محبت کرنے والا ایک بڑا طبقہ ہم سے دور ہوگیا۔
س:
متشاعروں کو آگے بڑھانے میں کن کا ہاتھ ہے ، آخر مشاعروں کے جو جنوین شعراء ہیں اس سلسلے میں کچھ کیوں نہیں کرتے ؟۔
ج:
آپ ان کا انتخاب کیسے کریں گے ۔مشاعرے کا ہر شاعر متشاعر نہیں ہے اور ہر شاعر ‘ شاعر بھی نہیں ہے ۔مشاعروں میں متشاعروں کی آمد کے لئے خود ہمارے شعراء ذمہ دار ہیں ۔اگر کوئی شاعر زیادہ مقبول ہونے لگا تو رقابت میں ‘ اس کی کاٹ میں ایک متشاعر لا کھڑاکردیا گیا۔سستی شہرت نے ایسے شاعروں کا دماغ کچھ اتنا خراب کردیا ہے کہ انہوں نے صبر اور برداشت کو بھی کھو دیا ہے ۔آپ ان سے کچھ کہیں گے تو یہ آپ سے لڑنے کے لئے تیار ہوجائیں گے ۔آج سے 20سال پہلے کے شعراء کو آپ دیکھیں‘ انہوں نے سستی شہرت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی ، اداکاری اور داد کا سہارا بھی نہیں لیا ‘ لیکن انہیں عوام کا احترام حاصل تھا ‘ اس عرصہ پر نظر دوڑائیں آپ کوکئی بڑے شعراء مل جائیں گے جن کا نام اور کام اب بھی زندہ ہے ۔جو ادب کا حصہ ہیں لیکن آج کے شعراء ادب میں کہیں کھڑے نہیں ہوسکتے ۔بس دوچار ہی لوگ ہیں‘ آج تو اسٹیج کے بہت سے شعراء یہ بھی نہیں جانتے کہ بحر کیا ہوتی ہے اور وزن کس چیز کا نام ہے ۔
س:
اس کے لئے آپ ناظم کو کس حد تک ذمہ دار مانتے ہیں جو متشاعر کی تعریف وتوصیف میں بھی زمین اور آسمان ایک کردیتا ہے ؟۔
ج:
دیکھئے ناظم تو بہرحال اپنی ڈیوٹی پوری کرتا ہے ۔مشاعرے کو کامیاب بنانے کیلئے اس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ بری چیز کو بھی اچھا بناکر پیش کرے ۔لوگ ایم بی اے اسی لئے کرتے ہیں کہ اچھی مارکیٹنگ کرسکیں اسی طرح ناظم بھی مشاعرے کامارکیٹنگ منیجر ہوتا ہے۔جاوید بھائی ‘ مشاعروں میں یہ جو خرابی آئی ہے اس سے ہماری شاعری پر منفی اثرات پڑے ہیں ۔رام کا بن باس تو صرف 14برس کا تھا لیکن ہماری ا سٹیج کی شاعری کو جو بن باس ملا ‘ اس کی مدت بہت زیادہ ہے ‘ اسٹیج پر جوکچھ پڑھا جاتا ہے وہ ایک لمحہ کا شعرہوتا ہے ۔لوگ اسی وقت سنتے ہیں اور اسی وقت اسے فراموش کردیتے ہیں۔مشاعروں کے اسٹیج پرآج بھی بڑے بڑے بادشاہ موجود ہیں لیکن اس 20سال کے عرصہ میں کوئی ایک ایسا شعر سامنے نہیں آیا جوادب میں زندہ رہ سکے۔ سچائی یہ ہے کہ اب مشاعرہ ’’پر فار منس‘‘ کا کھیل بن کر رہ گیا ہے وہی کامیاب ہے جو اچھا پر فارمر ہے۔ اگرا ن شاعروں کے ہاتھ باندھ دیے جائیں اور شعر سنانے کو کہا جائے تو میرا دعوی ہے کہ یہ 15منٹ بھی شعر نہیں سنا پائیں گے اور انہیں وہ داد بھی نہیں ملے گی جو عام طور پر انہیں ملا کرتی ہے پہلے کے شاعروں پر نظر دوڑائیں ، علی سردار جعفری، کیفی اعظمی ، مجروح سلطانپوری ، خمار بارہ بنکی اور دوسرے تمام شعرا آپ کو ایسے ملیں گے کہ وہ شعر سنانے کے لئے کوئی اداکاری نہیں کرتے تھے کیونکہ انہیں اپنے کلام پر اعتماد تھا۔
س:
آخر یہ صورت حال کیسے بدلے گی اور اردو کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لئے کیا کیا جانا چاہئے؟
ج:
دیکھئے لوگ ایسے شعراء کی حقیقت جانتے ہیں آج اسٹیج کے بہت سے مقبول شعراء دعویٰ کرتے ہیں کہ پوری دنیا میں ان کے کروڑوں چاہنے والے موجود ہیں لیکن ان کی کتاب جب شائع ہوتی ہے تو اسے بکنے کے بھی لالے پڑجاتے ہیں۔ ہو نا تو یہ چاہئے کہ مشاعروں میں چھتیں اڑا دینے والوں کی کتابیں ہاتھوں ہاتھ بک جاتیں لیکن ایسا نہیں ہے آخر کیوں؟ وجہ صاف ہے کہ لوگ جانتے ہیں کہ اس کتاب میں کیا ہوگامشاعروں کے یہ کامیاب شعر اسٹیج پر 10منٹ کے لئے بھلے ہی میر تقی میر بن جائیں لیکن جب کاغذ پر آتے ہیں تو یہ حقیقت کھل جاتی ہے کہ وہ کچھ نہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اچھے برے شاعروں کی تمیز کرنے والے لوگ اب بھی موجود ہیں ہونا یہ چاہئے کہ چھوٹے ہالوں میں ماڈل مشاعرے کئے جائیں جن میں حقیقی شعرا کو بلا یا جائے اور ان سامعین کو مدعو کیا جائے جو اب ہمارے مشاعروں سے دور ہو گئے ہیں تا کہ انہیں سونے اور پیتل کا فرق معلوم ہو جائے۔ جہاں تک اردو زبان کا تعلق ہے جو لوگ اردو کی روٹی کھارہے ہیں اور مشاعروں کے ذریعہ جو لوگ دولت بٹور رہے ہیں خود انہوں نے کبھی اردو کے لئے عملی طور پر کچھ نہیں کیا ۔ کیا ہمارے اسٹیج کے ان بڑے شعرا ء میں سے کسی نے اردوپڑھنے والے کسی بچہ کی حوصلہ افزائی کی،کیا کسی بچہ کی انہوں نے مالی مدد کی یا وہ کسی اسکول میںیہ جاننے گئے کہ یہاں اردو پڑھنے والے بچوں کی حالت کیا ہے نہیں بالکل نہیں۔ جب کہ سچائی یہ ہے کہ ان کے پاس جو کچھ دولت اور شہرت ہے وہ اردو کا بھی صدقہ ہے آج اردوکی جو زبوں حالی ہے اس میں اردو اکادمیوں کے ساتھ ساتھ ہمارے ان شعراء کا بھی ہاتھ ہے کہ انہوں نے اردو کے لئے کبھی کچھ نہیں کیا ۔ لیکن مایوس ہونے کی بات نہیں ہے۔ ’’اردو‘‘ ایک سحر انگیز زبان ہے اور جب تک انسان کے سینے میں جذبات واحساسات موجود رہیں گے اردو زندہ رہے گی کیونکہ اس زبان کا کوئی متبادل نہیں ہے۔!!

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔