.

.
تازہ ترین
کام جاری ہے...

ملی گزٹ اخبار بند ہونے والا ہے؟

منگل, اگست 19, 2014


از ڈاکٹر ظفرالاسلام خان، ایڈیٹر ملی گزٹ:-
کئی سال کے سنجیدہ غور و خوض کے بعد افسوس کے ساتھ ہمیں اس اخبار کے قارئین کو یہ بتانا پڑرہا ہے کی اسکی چھپائی جلد ہی بند کردی جائیگی۔ اس اخبار کا ۱۔۱۵۔اکتوبر کا شمارہ آخری ہوگا اگر اس کے قارئین اور بہی خواہ اسے جاری رکھنے کے لئے آگے نہیں آتے ہیں۔ دراصل یہ خیال ہمارے اور ہمارے قریبی لوگوں کے دماغ میں بہت دنوں سے تھا اور میرے دماغ میں تقریباً پچھلی ایک دہائی سے گھوم رہاتھا اس امکان کے بارے میں قارئین اور بہی خواہوں کو اسی اخبار کے ذریعے اور دوسرے طریقوں سے بھی وقتا فوقتایہ بتابھی دیا گیا تھا۔ 
جب جنوری ۲۰۰۰ میں ملی گزٹ شروع کیا گیا تھا تو ہمیں امید تھی کہ اگلے دو یا تین سالوں میںیہ پرچہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائیگا اور جب یہ اپنی آمدنی سے جاری رہ سکے گا تواسے ہفتہ وار بنادیاجائیگا اورایک لائق ٹیم کے حوالے کر دیا جائیگا جسکے بعد خود میرا اپنا رول بحیثیت ایک نگراں کے رہ جائیگا۔ شروع کے دو تین سالوں تک میں اسے اپنے ذاتی ذرائع سے جاری رکھنے کے لئے تیار تھا اور بحیثیت ایڈیٹر کے بغیر اجرت کے کام کرنے کیلئے بھی تیار تھا۔ لیکن تمام تر قربانیوں کے باوجود اور قومی اور بین زالاقوامی شہرت اور مقبولیت کے باوجودجو اس کو حاصل ہوگئیں ،یہ اخبار کبھی بھی خود کفیل نہ ہو سکا۔ ہماری قوم کے بارے میں میرا خیال تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں خرید کر اور اشتہار دے کراس اخبارکونہ صرف جاری رکھے گی بلکہ اسے فروغ بھی دیگی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم اول درجہ کے صحافی اور نمائندے رکھنے کے کبھی قابل نہ رہے اور انکی غیر موجودگی میں مجھے ہی زیادہ تر کام مثلا ایڈیٹنگ اور مضامین وغیرہ لکھنے بلکہ پرچے کی ڈیزائن کا کام بھی خود ہی کرنا پڑا۔ چونکہ میراکافی وقت اس اخبار کی چھپائی اور دیکھ بھال میں صرف ہوجاتا تھا اس لئے اس عرصے میں بحیثیت اسکالر کے میں اپنے علمی و تصنیفی کام بالکل نہیں کرپایا۔ اسی کے ساتھ خود میری اپنی فیملی کے کم سے کم دولوگ بھی خود کو ملی گزٹ کے کاموں میں بغیر کسی معاوضہ کے مصروف رکھتے رہے ۔ ان سب کے علاوہ میرے مکان کا بھی کافی حصہ آہستہ آہستہ ملی گزٹ کے آفس اور اس اخبارکی کاپیاں اور ریکارڈ رکھنے کے لئے وقف ہوگیا۔ 
بحیثیت ایک صحافی کے میری ذاتی آمدنی جو کچھ غیر ممالک کے اخباروں اور ویب سائٹس میں لکھنے، ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشن وغیرہ میں تجزیہ کرنے کیوجہ سے ہوتی اور اسکے علاوہ میری کمپنی کے ایکسپورٹ سے ہوتی، وہ بھی بڑی حد تک اس اخبار کو جاری رکھنے میں مسلسل لگانی پڑی جبکہ اسٹاف کا خرچ، اخباری کاغذ اور دوسرے مصارف بڑھتے ہی رہے۔ 
ظاہر ہے کہ ایسی حالت بہت دنوں تک لگاتار نہیں چل سکتی تھی اور دن بدن بڑھتے ہوئے اس خسارے کو کم کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی فیصلہ تو لینا ہی پڑتا۔ اسکے علاوہ بڑھتی ہو ئی عمر(اب میں۶۶ سال کا ہوچکا ہوں) اورگرتی ہوئی صحت کیوجہ سے میں یہ چاہتا ہوں کہ اپنے بہت سے ادھورے علمی کاموں کو پورا کرلوں قبل اسکے کہ بہت دیر ہو جائے جیسا کہ ماضی میں بہت سے علماء اور فضلاء کے ساتھ ہو چکاہے۔ ان بہت سے ادھورے کاموں میں جو چیز میرے نزدیک سب سے زیادہ ضروری ہے وہ عبداللہ یوسف علی کے انگریزی ترجمۂ قرآن پاک کی نظر ثانی اور تصحیح کرنا ہے۔ جو ایک حد تک میں کر چکا ہوں لیکن ابھی بہت کام باقی ہے ۔ 
مجھے یقین ہے کہ ہماری قوم کے اپنے ’’انگریزی اخبار‘‘ کے لئے جو اپیل اردو اخباروں میں برسہابرس سے کی جارہی ہے، وہ جاری رہیگی۔ میں نے ’’انگریزی اخبار‘‘ اخبار کے بارے میں ۱۹۶۰ کی دہائی کے شروع میں پڑھا اور سنا تھا جب مجھے ملی مسائل سمجھ میں آنے لگے تھے۔ اسمیں کوئی شک نہیں کہ کچھ سر پھرے لوگ پھر ملی گزٹ کی طرح سے کسی انگریزی اخبار کوشروع کرنے کیلئے اٹھ کھڑے ہونگے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ ایسے لوگوں کو پوری طرح کامیابی ملے۔ اس موقع پر میں ان تمام قارئین اور بہی خواہوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنھوں نے ہمارا ساتھ دیا اورمختلف طریقوں سے ہماری مدد کی حالانکہ انکی یہ ہمدردیاں اور مدد اس اخبار کو جاری رکھنے میں کافی نہ ہوسکیں۔ 
ان تمام سالوں میں نے اپنی قوم کی سچی تصویر، انکے مسائل، پریشانیاں وغیرہ انکے اور ملک کے عوام کے سامنے پیش کرنیکی کوشش کی اور اسکا موقع نہ دیا کہ کچھ سیاسی یا تجارتی مفادات اس اخبار پر اپنی اجارہ داری قائم کرلیں اورپروپیگینڈے کاہتھیار بنالیں۔ تقریبا ایک دہائی پہلے ہمیں جموں و کشمیر میں ہندوستانی فوج کی طرف سے’’ اچھی خبریں‘‘ شائع کرنیکی پیشکش ملی اور ان خبروں کو شائع کرنے کے عوض ہمیں ہر مہینہ خاصی رقم کی پیشکش کی گئی، جو اُس وقت یہ اخبار چلانے کے لئے کافی تھی، لیکن ہم نے فورا ہی اس غیر اخلاقی پیشکش کو نامنظور کردیا۔ 
ہمارے لئے ایک افسوسناک حقیقت یہ رہی ہے کہ بہت سے واقعات کو اسٹاف، نمائندوں اور مضموں نگاروں کی کمی اور صفحات کی کمی کیوجہ سے ہم شائع نہ کر سکے۔ اس لمبے عرصے میں ہم سے کچھ غلطیاں بھی ہوئیں جنمیں سے ایک رپورٹ حمیداللہ بھٹ اور دوسری رپورٹ ڈاکٹر نجمہ ہبت اللہ کے متعلق تھی۔ یہ دونوں رپورٹیں کچھ ذاتی مفاد رکھنے والے حضرات کی طرف سے ہمیں فراہم کی گئی تھیں جنمیں حقیقت اور افسانہ یعنی جھوٹ اور سچ دونوں ملے ہوئے تھے۔ جیسے ہی ہمیں اس حقیقت کا ادارک ہوا ہم نے ان رپورٹوں کو اپنی ویب سائٹ سے نکال دیا لیکن تب تک نقصان ہو چکا تھا۔ میں ان دونوں صاحبان سے معافی کا خواستگار ہوں اور درخواست کرتاہوں کہ مجھے اس غلطی کے لئے معاف کردیں۔ 
اس لمبے عرصے میں ہم نے بہت سی لڑائیاں لڑیں اور بہت سے مسائل کو کامیابی کے ساتھ عوام وخواص کے سامنے پیش کیا۔ جنمیں سے خاص مسئلہ جھوٹے اور من گھڑت دہشت گردی کے واقعات میں مسلم نوجوانوں کو پھنسانا تھا جو بالخصوص ایل کے اڈوانی کے ۹۹۹ ۱میں وزیر داخلہ ہونے کے بعدسے شروع ہوا۔ اس طرح کے جھوٹے واقعات کے بارے میں ہم نے ریسرچ اور تحقیق کے بعد بہت سی کتابوں کوبھی شائع کرکے عوام کے سامنے پیش کیا جن کے ذریعے سے آئی بی، اے ٹی ایس اور اسپیشل سیل وغیرہ کی جھوٹی اور بے بنیادکہانیوں کو،جنکا مقصد صرف ہماری قوم کو بدنام کرنا اور عوام کی نظر میں مجرم بنانا تھا، فاش کیا۔ آئندہ بھی ہم اس طرح کی ناپاک کوششوں کواس وقت تک فاش کرتے رہیں گے جب تک کہ مرکزی حکومت اور ایجنسیوں کی الزام تراشیاں بند نہ ہوجائیں۔ 
ہمارا اشاعتی ادارہ اورملی گزٹ پورٹل پہلے کی طرح کام کرتے رہیں گے۔ ملی گزٹ کا پورٹل بہت بڑا ہے اور اسمیں ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل کے بارے میں بے شمار ضروری رپورٹیں، مضامین اور اطلاعات محفوظ ہیں اورملی گزٹ زیادہ تر پرانے شمارے بھی اسمیں موجودہیں۔ 
ہم اپنے قارئین کے لئے پہلے سے ہی یہ نوٹس شائع کر رہے ہیں تاکہ اگر ممکن ہو تووہ اس اخبار کی اشاعت کو جاری رکھنے میں ہماری مدد کریں۔ اس مطبوعہ اخبار کا سلسلہ اب بھی جاری رہ سکتا ہے اگر ہمارے قارئین اور بہی خواہ اسکے خریداروں کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچائیں اور ان میں سے ہر ایک کم سے کم تین سال کا زر تعاون جمع کرے ۔
اگر آپ واقعی یہ سوچتے ہیں کہ یہ اخبار چلنا چاہئے تو اپنا تین سال کا زرتعاون نارمل ریٹ پر پیشگی ادا کردیں اور اپنے رشتہ داروں، دوست واحباب اور مختلف اداروں کو بھی اسکا خریدار بننے کے لئے تیار کریں۔ آپ خود اور دوسرے افراد، اداروں، لائبریریوں اور مشہور عوامی لیڈروں وغیرہ کے لئے اپنی طرف سے زرتعاون جمع کر سکتے ہیں جنکے بارے میں آپکا خیال ہوکہ اُنھیں اس اخبار کو پڑھنا چاہئے۔ ہم یہ بھی امید کرتے ہیں کہ آپ اپنے اشتہارات اس اخبار میں دیں گے اور دوسروں کو بھی اسکی ترغیب دلائیں گے ۔ اپنا زرتعاون آپ بذریعہ چیک بھیج سکتے ہیں جسے ہم بنک میں اسوقت تک نہیں جمع کریں گے جب تک کہ ہم اپنے ٹارگیٹ کے قریب نہ پہونچ جائیں اور۱۵۔۱ اکتوبر کے بعد بھی پرچے کی اشاعت جاری رکھنے کا فیصلہ کریں۔میں آپ کو یہ نوٹس ایک تجویز کے ساتھ پیشگی دے رہا ہوں تاکہ بعد میں کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیں اسکی پیشگی اطلاع کیوں نہیں دی گئی۔ 

ایک تبصرہ:

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔