غزہ ميں مصر کی ثالثی کے نتيجے ميں طے پانے والے 72
گھنٹوں کے جنگ بندی معاہدے پر عمل در آمد جاری ہے جبکہ اسی دوران فلسطينی اور
اسرائيلی وفود دير پا قيام امن اور جنگ بندی ميں توسيع پر بات چيت کرنے کے ليے
قاہرہ پہنچ چکے ہيں۔
غزہ ميں تين روزہ فائر بندی کا آغاز منگل پانچ اگست کے روز مقامی وقت کے
مطابق صبح آٹھ بجے جبکہ عالمی وقت کے مطابق صبچ پانچ بجے ہوا۔ عارضی جنگ بندی کے
قيام کی پچھلی چند کوششوں کے برعکس اس بار جنگ بندی تاحال برقرار ہے۔ غزہ کے طبی
ذرائع کے مطابق گزشتہ نصب شب سے ہلاک شدگان يا زخميوں کی تعداد ميں کوئی اضافہ
نہيں ہوا ہے۔
نيوز ايجنسی اے ايف پی کی غزہ سے موصول ہونے والی رپورٹوں کے مطابق علاقے
کے مقينوں نے کئی ايام بعد اپنے اپنے گھروں کا رخ کيا اور نقصانات کا اندازہ لگانے
کی کوشش کی۔ مغربی کنارے کے شہر رملہ کے نائب وزير اقتصاديات تاثير عمرو نے اس
انتيس روزہ جنگ کے مالی نقصانات کا تخمينہ چھ بلين ڈالر يا ساڑھے چار بلين يورو
لگايا ہے۔
غزہ سے اسرائيلی سرزمين کی جانب کيے جانے والے راکٹ حملوں کے جواب ميں
اسرائيل نے آٹھ جولائی کو غزہ ميں باقاعدہ کارروائی کا آغاز کيا تھا۔ بعدازاں
پچھلے 29 دنوں ميں وہاں 1,875 فلسطينی ہلاک ہو چکے ہيں، جن ميں 430 بچے شامل ہيں۔
طبی ذرائع کے مطابق مجموعی طور پر 9,567 فلسطينی زخمی بھی ہوئے، جن ميں بھی 2,878
بچے شامل ہيں۔ اس دوران اسرائيل کے بھی 64 فوجی اور تين شہری مارے گئے۔
غزہ ميں شہريوں کی ہلاکتوں کے بھاری تناسب کے سبب اسرائيل عالمی سطح پر کڑی
تنقيد کی زد ميں ہے۔ اسرائيلی فوج کے بقول کارروائی کے دوران ايک ملک سے دوسرے ملک
تک جانے والی 32 سرنگوں کو ختم کر ديا گيا جبکہ اس دوران کُل 4,800 اہداف کو نشانہ بنايا گيا۔
مذاکرات کے ليے اسرائيلی و فلسطينی وفود قاہرہ ميں
دريں اثناء اسرائيل اور حماس کی طرف سے يہ تصديق کر دی گئی ہے کہ غزہ ميں
مستقل جنگ بندی کے قيام کے ليے ان کے وفود قاہرہ پہنچ چکے ہيں۔ تاہم مذاکرات کاروں
کو کافی مشکلات کا سامنا ہوگا۔ فلسطين کا مطالبہ ہے کہ اسرائيل غزہ کی آٹھ سالہ
بندش ختم کرے جبکہ اسرائيل غزہ سے تمام ہتھياروں کا خاتمہ چاہتا ہے۔
ادھر واشنگٹن
سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق يہ امکان ظاہر کيا گيا ہے کہ امريکی نمائندے بھی قاہرہ
ميں ہونے والی اس بات چيت ميں شرکت کر سکتے ہيں۔ اس بارے ميں منگل کے روز بات چيت
کرتے ہوئے محکمہ خارجہ کی ترجمان جينيفر ساکی نے کہا، ’’اس بات کا تعين کيا جا رہا
ہے کہ امريکا کس سطح پر، کب اور کس حيثيت سے مذاکرات ميں شرکت کرے گا۔‘‘
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔