.

.
تازہ ترین
کام جاری ہے...

انٹرنیٹ پر ماں کے دودھ کی خرید و فروخت؟

منگل, اگست 12, 2014
برلن: انٹرنیٹ پر کتابوں اور جوتوں سے لے کر ریفریجریٹرز تک تقریبا سبھی کچھ خریدا جا سکتا تھا لیکن اب وہاں ماں کا دودھ بھی دستیاب ہے۔ کیا یہ دودھ نہ پلا سکنے والی ماؤں کے لیے حقیقی متبادل، بچوں کے لیے خطرہ یا پھر کار خیر ہے؟ جرمنی میں ماں کے دودھ کی خرید و فروخت کی بنیاد تانیا میولر کی طرف سے رکھی گئی اور اس سال جنوری سے ان کی انٹرنیٹ ویب سائٹ پر ماں کے دودھ کی خرید و فروخت جاری ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’میرے پاس دودھ زیادہ ہوتا تھا اور میں اضافی دودھ پھینک دیتی تھی۔ لیکن یہ اصل میں بہت ہی سادہ خیال تھا کہ ایک ماں کا دودھ دوسری ماں کو دے دیا جائے۔ ایسا ہوتا ہے کہ ایک کے پاس اضافی دودھ ہوتا ہے اور دوسری ماں کے پاس بچے کی ضرورت سے کم۔‘‘ تانیا میولر کا یہ موقف اپنی جگہ لیکن ماں کے دودھ کی آئن لائن خرید و فروخت پر شدید تنقید بھی کی جا رہی ہے۔ جرمنی کے برعکس امریکا میں گزشتہ دس برسوں سے ماں کے دودھ کی خریدو فروخت یا تبادلہ جاری ہے۔ ماں کے دودھ سے متعلق انٹرنیٹ پلیٹ فارم کے قیام کی وجہ کئی دیگر وجوہات بھی بتائی جاتی ہیں، کئی خواتین کے پاس قدرتی طور پر کم دودھ ہوتا ہے اور کئی خواتین کے آپریشن ہو چکے ہوتے ہیں۔ تانیا میولر کہتی ہیں کہ وہ اپنے آن لائن پلیٹ فارم کے ذریعے دونوں طرح کی ماؤں، دودھ تلاش اور فراہم کرنے والیوں کا آپس میں رابطہ کروانا چاہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ویب سائٹ پر ہر ماں کے لیے پانچ ہدایات دی گئی ہیں، جو ہر کسی کو پڑھنی چاہییں۔ پہلی ہدایت یہ ہے کہ اپنے مضافات میں کوئی ایسی خاتون تلاش کی جائے، جو دودھ عطیہ کرنا یا بیچنا چاہتی ہو۔ قریب ہی رہنے والی خاتون سے براہ راست ملاقات بھی کی جا سکتی ہے تاکہ اعتماد میں اضافہ ہو۔ تانیا میولر اپنی ویب سائٹ پر دودھ خریدنے یا بیچنے سے متعلق اشتہار کے لیے پانچ یورو (تقریبا 650 پاکستانی روپے) وصول کرتی ہے جبکہ دودھ سے متعلق قواعد و ضوابط اور قیمت وغیرہ دونوں مائیں یا دونوں پارٹیاں خود طے کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ دودھ براہ راست خود بھی ڈیلیور کیا جا سکتا ہے یا پھر فریز کیا ہوا دودھ ڈاک کے ذریعے بھیجا جا سکتا ہے۔ ڈاک کے ذریعے ماں کے دودھ کی فراہمی کے لیے ضروری ہے کہ کولڈ چین کو برقرار رکھا جائے لیکن کیا یہ سب کچھ انتہائی آسان ہے؟ تاہم انٹرنیٹ سے ماں کی دودھ کی خریدو فروخت پر شدید تنقید بھی سامنے آئی ہے۔ سب سے سخت تنقید جرمنی میں ’ماؤں کے دودھ سے متعلق نیشنل کمیشن‘، خطرات کی تشخیص کے وفاقی جرمن ادارے( بی ایف آر) اور بچوں کی غذا سے متعلق جرمن سوسائٹی(ڈی جی کے جی) کی طرف سے کی گئی ہے۔ ان اداروں کا کہنا ہے کہ بغیر تجزیے اور کوالٹی کنٹرول کے کسی دوسری ماں کے دودھ کا استعمال خطرے سے خالی نہیں، ’’ماہرین اور ڈاکٹروں کے مطابق ڈونر ماؤں کے دودھ کے ذریعے بیکٹیریا، جراثیم یا وائرس کی ممکنہ ٹرانسمیشن کا خطرہ ہے۔ تاہم جرمنی میں ’مدر مِلک بینک‘ بھی قائم ہیں اور یہ مختلف ہسپتالوں سے منسلک ہیں۔ پوٹسڈام میں بیرگمان کلینک کے سربراہ ڈاکٹر مشائیل راڈکے ’مدر مِلک بینکوں‘ میں رکھے گئے ماؤں کے دودھ کے معیار سے متعلق کہتے ہیں کہ وہ دودھ عطیہ کرنے والی خواتین کے پہلے تمام ممکنہ (ہیپاٹائٹس، یرقان، ایچ آئی وی یا وائرل متعدی امراض کے) ٹیسٹ کرتے ہیں اور اس کے بعد ہی ان کا دودھ ’مدر مِلک بینک‘ میں رکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد ماں کے دودھ کو فریز کر دیا جاتا ہے اور حتمی طور پر کسی بچے کو پلانے سے پہلے ایک مرتبہ پھر دودھ کے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے لیے ’مدر مِلک بینکوں‘ کی تعداد میں اضافہ کیا جانا چاہیے نہ کہ آئن لائن خریدو فروخت کا کاروبار شروع کر دیا جائے۔بشکریہ ڈوئچویلے اردو

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔