.

.
تازہ ترین
کام جاری ہے...

پاکستان میں بائیں بازو کی تحریک کی ناکامی کے اسباب

منگل, اگست 12, 2014
تحریر: شاہنواز فاروقی --کیا سوویت یونین اور چین میں اسلام کی بنیاد پر سیاست کی گنجائش تھی؟ کیا امریکہ اور یورپ میں قرآن و سنت کو دستور اور منشور بنا کر سیاست کی جا سکتی ہے؟ ان دونوں سوالات کا جواب نفی میں ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا، تاہم اس کے باوجود پاکستان میں قوم پرستی، سیکولرازم اور بائیں بازو کے نظریات کی بنیاد پر سیاست کی جاتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے باوجود اسلامی معاشرے کو تنگ نظر یا رجعت پسند کہا جاتا ہے۔ لیکن آج ہمارا موضوع اسلامی اور غیر اسلامی معاشروں کا موازنہ نہیں۔ آج ہمارا موضوع یہ ہے کہ اگرچہ پاکستان میں بائیں بازو نے بھرپور سیاست کی ہے مگر اس کے باوجود بائیں بازو کی تحریک کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی گئی ہے، یہاں تک کہ 1980 کے وسط میں ممتاز ترقی پسند ادیب اور استاد مجنوں گورکھپوری نے ایک انٹرویو میں صاف کہہ دیا تھاکہ کم از کم ادب میں ترقی پسندی مر چکی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ مجنوں صاحب نے جب یہ بات کہی تھی تو ابھی سوشلزم اور سوویت یونین آنجہانی نہیں ہوئے تھے۔ سوشلزم اور سوویت یونین کے خاتمے کے بعد بائیں بازو کا زوال تیزی سے آگے بڑھا۔ تاہم بائیں بازو میں اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں یہ اعتراف کرنے میں تامل ہے کہ بایاں بازو ناکام ہوگیا ہے۔ لیکن بائیں بازو کی ناکامی اتنی گہری اور ہمہ گیر ہے کہ اب اس ناکامی پر پردہ ڈالنا ناممکن ہے۔ چنانچہ بائیں بازو کی صفوں میں اپنی ناکامی کے اعتراف کا دائرہ نہ صرف یہ کہ وسیع ہورہا ہے بلکہ بائیں بازو کی ناکامی کے اسباب کا سراغ لگانے کی کوششیں بھی ہورہی ہیں۔

ایسی ہی ایک کوشش گزشتہ دنوں کراچی میں معروف صحافی ضمیر شیخ کی کتاب “What went wrong” کی تقریبِ پذیرائی کے دوران دیکھنے میں آئی۔ تقریب سے کئی ترقی پسند دانش وروں نے خطاب کیا۔ اگرچہ تقریب پر مجلس عزا کا رنگ غالب تھا لیکن بائیں بازو کے دانش وروں نے بائیں بازو کی ناکامیوں کے اسباب کی اچھی خاصی فہرست مرتب کرڈالی۔ معروف مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے 1951ء کے پنڈی سازش کیس کا ذکر کیا اور کہا کہ انقلاب مسلح اقدام سے وجود میں نہیں آتے بلکہ انقلاب انتہائی نچلی سطح پر عوام کی مکمل تائید سے برپا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کمیونسٹ پارٹی پاکستان میں اس لیے ناکام ہوئی کہ اسے کبھی عوامی جماعت نہیں بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ تقسیم کے وقت کمیونسٹ پارٹی سے سب سے بڑی غلطی یہ ہوئی کہ اس نے اپنے مسلم اراکین کو مسلم لیگ میں شامل ہونے پر اکسایا جس سے کمیونسٹ پارٹی کے فرقہ وارانہ جماعت ہونے کا تاثر عام ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے  کلیہ علومِ عمرانی کے سربراہ ڈاکٹر ریاض شیخ نے کہا کہ ترقی پسند تحریک کو ہمیشہ ریاستی قوتوں نے سبوتاژ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے امریکہ کی باج گزار ریاست بن جانے کے بعد ترقی پسند تحریک کو ہمیشہ اپنے خلاف وحشیانہ قوت کے استعمال کا اندیشہ لاحق رہا ہے اور اس صورت حال نے ترقی پسند تحریک کو ابھرنے نہیں دیا۔ معروف صحافی مظہر عباس نے کہا کہ پاکستان میں بائیں بازو کی تحریک نہیں بائیں بازو کے سیاست دان ناکام ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ضمیر شیخ نے اپنی کتاب میں ذوالفقار علی بھٹو کا ذکر کیا ہے، لیکن بھٹو صاحب کبھی بائیں بازو کے سیاست دان نہیں تھے۔ بھٹو صاحب نے صرف بائیں بازو کے سیاست دانوں کی ناکامی کے خلا کو پُر کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج لبرل عناصر کا المیہ یہ ہے کہ وہ امریکہ کے حمایتی بنے ہوئے ہیں۔ معروف صحافی سعید خاور نے کہا کہ ترقی پسند تحریک کی ناکامی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان ایک جاگیردارانہ ریاست ہے اور جاگیرداروں نے بائیں بازو کو ناکام بنانے کے لیے سیاسی جماعتیں تشکیل دیں۔ چنانچہ بائیں کو زیرِ زمین رہ کر کام کرنا پڑا۔ ڈاکٹر توصیف نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بائیں بازو کی ناکامی کی ایک وجہ 1960ء میں سوویت یونین اور چین کے درمیان پیدا ہونے والی کشمکش تھی۔ معروف سیاست دان معراج محمد خان نے کہا کہ ترقی پسندی کا سب سے بڑا دشمن جبر ہے۔ یہ جبر ہی تھا جس نے سوویت یونین کو پارہ پارہ کیا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ہم نے سوویت یونین کھویا ہے، دنیا کو نہیں کھویا۔ انہوں نے بائیں بازو کی جماعتوں سے کہا کہ وہ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر اپنے اختلافات کو دور کرلیں اور ترقی پسند تحریک کو ایک نئی زندگی سے ہمکنار کریں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ ترقی پسند دانش وروں نے بائیں بازو کی تحریک کی ناکامی کا تجزیہ کتنے معروضی انداز میں کیا ہے؟
غور کیا جائے تو یہ تجزیہ کئی اعتبار سے افسوس ناک ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پوری تقریب میں کسی شخص نے اشارتاً بھی یہ بات نہیں کہی کہ بائیں بازو کی تحریک کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ اس کی مذہب بے زاری ہے۔ برصغیر کا مسلم معاشرہ اپنی نہاد میں ایک مذہبی معاشرہ ہے اور بائیں بازو کی تحریک مذہب کو افیون کہتی تھی۔ چنانچہ یہ تحریک برصغیر کے عوام کی عظیم اکثریت کے لیے نہ کل قابلِ قبول تھی، نہ آج قابلِ قبول ہے، اور نہ مستقبل قریب میں اس کے قابلِ قبول ہونے کا امکان نظر آتا ہے۔ چونکہ بائیں بازو کی تحریک مذہب دشمن تھی اس لیے اس کے حریفوںکو عوام سے صرف یہ کہنا پڑتا تھا کہ یہ تحریک تمہارے عقائد، تمہارے ایمان، تمہاری عبادات اور تمہاری اخلاقیات کے خلاف ہے۔ باقی کام لوگوں کا ذہن خود کرلیتا تھا۔ اس سلسلے میں بائیں بازو کی تحریک کی کم فہمی کا یہ عالم تھا کہ اس نے روس، چین اور مشرقی یورپ کے تجربے کو برصغیر کی مسلم معاشرت پر منطبق کردیا۔ اس تحریک کے رہنمائوں اور کارکنوں نے سمجھا کہ جس طرح روس میں مذہب کے خلاف بغاوت ہوئی اسی طرح برصغیر میں بھی بالآخر لوگ مذہب کے خلاف ہوجائیں گے۔لیکن عیسائیت اور اسلام کے تاریخی تجربے میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ روس، چین اور یورپ میں مذہب کے خلاف بغاوت سے قبل مذہب انسانوں کی اکثریت کی زندگی میں بے معنی ہوچکا تھا۔ دوستووسکی کے ناولوں میں روسی انقلاب سے پہلے کی معاشرت موجود ہے اور یہ معاشرت بتاتی ہے کہ اگر چہ عیسائیت روس میں موجود ہے مگر عوام کی اکثریت یا تو مذہب سے بے زار ہوچکی ہے یا اس سے لاتعلق ہوچکی ہے۔ چین میں مائو کے انقلاب سے پہلے تائو ازم اور کنفیوشس ازم دونوں کی روایات دم توڑ چکی تھیں۔ یورپ میں نٹشے اعلان کرچکا تھا کہ خدا مر گیا ہے۔ اس کے برعکس برصغیر کے مسلم معاشرے میں لوگوں کی عظیم اکثریت کے عقائد پوری طرح زندہ تھے۔ عبادات کا نظام اپنی جگہ کام کررہا تھا۔مسلمان اسلام کی اخلاقی اقدار سے دور ہوگئے تھے، مگر وہ ان اقدار کے منکر نہیں تھے، چنانچہ ان کے دلوں میں اسلام کے ’’متبادل‘‘ کی کوئی آرزو موجود نہ تھی۔ سوال یہ ہے کہ ایک ایسی معاشرت میں وہ تحریک کیسے کامیاب ہوسکتی تھی اور کیسے عوامی تحریک بن سکتی تھی جو خدا کی منکر تھی، قرآن کی  منکر تھی، رسالت کی منکر تھی،، مسلمانوں کی تہذیبی روایت اور ان کی تاریخ کی منکر تھی؟ کتنی عجیب بات ہے کہ بائیں بازو کے دانش وروں اور رہنمائوں کو اسلام کی اس قوت کا شعور نہ اُس وقت تھا جب وہ ادب، صحافت اور سیاست کے میدانوں میں چھائے ہوئے تھے، اور انہیں نہ آج اس وقت اسلام کی قوت کا احساس ہے جب ان کے یہاں اپنی ناکامی کے حوالے سے صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے۔ بلاشبہ بائیں بازو کی تحریک نے مسلم معاشرت کے خواص کے ایک قابل ذکر حصے کو متاثر کیا، لیکن یہ وہ طبقہ تھا جو سرسید کی جدید تعلیم اور ان کی عقلیت پسندی کے زیرسایہ پروان چڑھا تھا اور اس کی انفرادی زندگی میں مذہب کسی فیصلہ کن اہمیت کا حامل نہیں تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ترقی پسند دانش ور مذہب کی اہمیت کے اقرار سے کیوں گریزاں ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہب ان کی کمزوری، چڑ اور مخمصہ ہے۔ وہ مذہب کا اقرار کرتے ہیں تو ان کی ترقی پسندی جاتی ہے، اور مذہب کا انکار کرتے ہیں تو ان کی تحریک بالآخر میوزیم میں رکھے جانے کے لائق چیز بن جاتی ہے۔
بائیں بازو کی تحریک کی ناکامی کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ تحریک کبھی بھی ’’مقامی‘‘ تحریک نہیں تھی۔ بلاشبہ بائیں بازو کی تمام جماعتیں مقامی تھیں مگر انہیں ایجنڈا سوویت یونین اور چین سے فراہم ہوتا تھا۔ ان کی پالیسیاں ’’ماسکو‘‘ اور ’’پیکنگ‘‘ سے بن کر آتی تھیں۔ ظاہر ہے کہ ماسکو اور پیکنگ میں بیٹھے ہوئے لوگوںکو پاکستان کے معروضی حالات کا علم نہیں ہوسکتا تھا۔ یہ وہی بات ہے جو آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے حوالے سے کہی جاتی ہے۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت کی حالت درست کیوں نہیں ہوتی؟ اس کی بہت سی وجوہ میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ مسائل ہمارے ہیں مگر ان کا تجزیہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے ماہرین کرتے ہیں۔ چونکہ بائیں بازو کی پالیسیاں روس اور چین سے آئی تھیں، اس لیے ان میں کبھی مقامی رنگ پیدا نہ ہوسکا۔ 1960ء کی دہائی میں روس اور چین میں جھگڑا ہوا تو پاکستان میں بایاں بازو  روسی اور چینی کیمپوں میں تقسیم ہوگیا۔ لیکن بائیں بازو کے دانش ور اس حقیقت کا اعتراف کرنے سے بھی گریزاں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں اُن کا ’’کٹھ پتلیاں‘‘ ہونا ثابت ہوجائے گا۔ لیکن اگر پاکستان کا بایاں بازو روس اور چین کی کٹھ پتلی تھا تو یہ حقیقت عیاں ہے کہ کٹھ پتلیاں کبھی انقلاب برپا نہیں کرسکتیں۔
بلاشبہ بائیں بازو کو مخلص یا کمیٹڈ کارکنوں کی بڑی تعداد فراہم ہوئی، مگر بائیں بازو کے رہنمائوں کی بڑی تعداد کی زندگی اور نظریے میں گہرا تضاد پایا جاتا تھا۔ معروف ترقی پسند ادیب اور وکیل مسلم شمیم نے زیربحث کتاب کی تقریب میں ہی بائیں بازو کی مرکزی شخصیت سجاد ظہیر کو ’’وائسرائے‘‘ کا خطاب دیا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بائیں بازو میں صرف ایک وائسرائے نہیں تھا، کئی وائسرائے تھے۔ فرق صرف ان کے چھوٹے بڑے ہونے کا تھا۔ مثلاً فیضؔ محنت کشوں کے شاعر ضرور تھے مگر ان کی زندگی ایک سوشلسٹ کی زندگی نہیں تھی۔ جوش ملیح آبادی کو اگر ترقی پسند تصور کرلیا جائے تو جوشؔ شاعرِ انقلاب ضرور تھے مگر ان کی زندگی میں کہیں انقلابیت نظر نہ آتی تھی۔ چونکہ بائیں بازو کے رہنمائوں اور دانش وروں کی اکثریت نے اپنے مثالیوں یا Ideals کو بسر کرکے نہیں دکھایا اس لیے وہ کبھی عوام کی اکثریت پر اثرانداز نہ ہوسکے۔ بائیں بازو کی ناکامی کی ایک وجہ بائیں بازو کے نظریے کے مطابق یہ ہے کہ سوشلزم، نظام سے باہر رہ کر انقلاب لانے کا  تصور پیش کرتا ہے، لیکن بائیں بازو کے لوگوں نے پاکستان میں نظام کا حصہ بن کر انقلاب لانے کی کوشش کی۔ اس سے انہیں طاقت تو حاصل ہوئی مگر ان کی نظریاتی کشش محدود ہوگئی۔ قرۃ العین حیدر نے اپنے ناول ’’آخرِ شب کے ہمسفر‘‘ میں دکھایا ہے کہ ہزاروں نوجوان سوشلزم کے حوالے سے انقلابی زندگی گزار رہے ہیں مگر ان کے رہنما بالآخر حکومت میں وزیر بنے اور بڑے بڑے گھروں میں زندگیاں بسر کرتے نظر آرہے ہیں۔ قرۃ العین حیدر کا یہ ناول شائع ہوا تو ترقی پسندوں نے انہیں امریکی استعمار کا ایجنٹ قرار دیا تھا، مگر قرۃ العین نے بالکل درست کہا ہے کہ بھٹو صاحب بائیں بازو کے آدمی نہیں تھے مگر بائیں بازو کو بھٹو صاحب فراہم نہ ہوتے تو بائیں بازو کا پاکستان میں اتنا بھی اثر نہ ہوتا جتنا کہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بائیں بازو میں عوامی اپیل تھی ہی نہیں۔ بائیں بازو کے لیے یہ مسئلہ اتنا سنگین تھا کہ جیسے ہی بھٹو صاحب سیاست میں طلوع ہوئے، بایاں بازو دوڑ کر ان سے چمٹ گیا اور اسے بھٹو صاحب کا جاگیردارانہ پس منظر تک نظر نہ آیا۔ اب بائیں بازو کے لوگ شکایت کرتے ہیںکہ بھٹو صاحب نے ملک کو اسلامی آئین دے کر مذہبی قوتوں کے آگے ہتھیار ڈالے۔ انہوں نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔ شراب پر پابندی لگائی۔ جمعہ کی تعطیل کا اعلان کیا۔ لیکن بھٹو صاحب نے ایسا اس لیے کیا کہ وہ معاشرے میں مذہب کی قوت سے آگاہ تھے۔ مگر بایاں بازو ناکام ہوکر بھی مذہب کی قوت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہاں تک کہ وہ اسلام دشمنی میں اُس امریکہ کے ساتھ جا کھڑا ہوا ہے جس کے خلاف اس نے 70 سال تک جدوجہد کی ہے۔
بشکریہ
http://fridayspecial.com.pk/20983

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔