.

.
تازہ ترین
کام جاری ہے...

چوتھی ورلڈ ایجو کیشن کانفرنس

پیر, اگست 11, 2014

 حکومت مدارس نہیں، مسلمانوں کی عصری تعلیم پر توجہ دے 
 
 نئی دہلی  اگست : (ڈاکٹر محمد راغب دیشمکھ کی رپورٹ)
ملک بھر سے آئے سرکردہ مسلم تعلیمی اداروں کے سربراہوں اور ماہرین تعلیم نے مطالبہ کیا کہ حکومت مدارس کی بجائے مسلمانوں کو عصری تعلیم کے حصول میں حائل مشکلات دور کرنے اور اقلیتی تعلیمی اداروںکے مسائل کو حل کرنے کی طرف توجہ دے۔ کل شام یہاں ورلڈ ایجو کیشن سمیٹ کی چوتھی دو روزہ کانفرنس کے اختتام کے موقع پر تعلیمی رہنماﺅں نے کہا کہ مسلمانوں کی تعلیمی پیش رفت کے لئے اقلیتی علاقوں میں عصری تعلیمی اداروں کا فروغ دیا جائے کیونکہ مسلمانوں کے 96فی صد بچے عصری تعلیم حاصل کرتے ہیں انہیں جدید تعلیمی سہولیات فراہم کرنے کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ کانفرنس میں تعلیم کو جدید تقاضوں سے ہمکنار کرنے اور درس و تدریس میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے استعمال پر زوردیا گیا تاکہ ہندوستان ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں شامل ہوسکے ۔
 پہلی مرتبہ ایک بڑی کانفرنس میں، جو بنیادی اور اعلی تعلیم کو جدید اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے مزیّن کرنے کے پر موضوع پرمنعقدہ ہوئی ، مسلمانوں کی تعلیم اور انکے اداروں پر بھی ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا گیا۔ فیڈریشن آف مائنارٹیز مینجیڈ انسٹی ٹیوشنس ( اقلیتوں کے زیر انتظام اداروں کی انجمن ) کے چیئرمین تاج محمد خان نے کہا کہ حکومتوں کی ساری توجہ مدارس کی جدید کاری کی طرف ہے ۔ اور اس کے نام پر کسی مدرسہ کو کمپیوٹر سیٹ یا عصری مضامین کے ایک دو ٹیچر فراہم کردینا مسلمانوں کے تعلیمی مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ وہ میسور ( کرناٹک ) میں رفاہ المسلمین ٹرسٹ کے تحت متعدد تعلیمی ادارے چلاتے ہیں جس میں پانچ ہزار سے زائد طلبا زیر تعلیم ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اقلیتی تعلیمی اداروں کو وسائل کے علاوہ سرکاری سطح پر بڑی مشکلات پیش آتی ہیں۔آسام کے اجمل فاﺅنڈیشن کے نورلشکر نے بھی اس کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ عصری اور اعلی تعلیم تک رسائی کو آسان بنانا د ر اصل مسلمانوں کا اہم مسئلہ ہے۔ فاﺅنڈیشن کے تحت ریاست میں18 کالج اور کئی اسکول قائم ہیں۔ تمل ناڈو کی تحسین بی بی ویمنس کالج کی پرنسپل ڈاکٹر سمیہ نے کہا کہ مسلمانوں کے تعلیمی مسئلہ کو مدرسہ اور اردو تک محدود کردیا گیا ہے اور انکے اصل مسائل کو نظر انداز کیا جارہا ہے ۔ ڈاکٹر سمیہ نے کہا کہ یہ کانفرنس مسلمانوں کے اصل تعلیمی مسائل کو اجاگر کرنے کی ایک اچھی اور قابل قدر کوشش ہے جسکے لئے قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارہ جات اور ڈاکٹر شبستان غفار کی کمیٹی آن گرلز ایجوکیشن اور آل انڈیا کنفیڈ ریشن فار ویمنس امپاور منٹ تھرو ایجوکیشن قابل مبارکباد ہیں ۔ ا س کانفرنس کے توسط سے ا قلیتوں کے زیر اہتمام چل رہے اعلی تعلیمی اور ٹیکنکل اداروں کو مین اسٹریم میں لانے میں بھی مد دملی ہے۔ کئی نمائندوں نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جبکہ تعلیم کا شعبہ میںپراﺅیٹ سیکٹر کا عمل دخل تیزی سے بڑھتا جارہا ہے درجنوں کی تعداد میں غیر سرکاری (نجی)یونیو رسٹیاں اور کالج قائم ہو رہے ہیں اس کے نتیجہ میں اعلی تعلیم تک ایک عام آدمی کی رسائی مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے۔اس کا مدوا اسی صورت ہوسکتا ہے جب حکومت ایسے اداروں کی مدد کرے جو کمزور اور اقلیتی طبقات کی تعلیمی ضروریات کو پوار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 
 ڈیجیٹل لرننگ میگزین کے ایڈیٹر اور ایلیٹس کے سربراہ روی گپتا نے کہا کہ یہ پہلا موقع جب ورلڈ ایجوکیشن سمیٹ کی کانفرنس میں اقلیتی تعلیم پر بھی توجہ دی گئی اور یہ سب کچھ قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارہ جات اور اس کی کمیٹی آن گرلز ایجوکیشن اور آل انڈیا کنفیڈ ریشن فار ویمنس امپاور منٹ تھرو ایجوکیشن کے فعال تعاون کی بدولت ممکن ہوسکا ہے۔ روی گپتا نے اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ مسلمان تعلیمی میدان میں گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہیں لیکن یہ چیز اہل ملک کے سامنے پوری طرح سے نہیں آسکی ۔ انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل لرننگ میگزین کے خصوصی شمارہ کی اشاعت اسی مقصد سے عمل میں لائی گئی کہ مسلمانوں کی تعلیمی میدان میں پیش رفت سے عوام اور ارباب اقتدار کو روشناس کرایا جائے۔
 اقلیتی تعلیمی کمیشن کی ذ یلی انجمن تعلیم نسواں کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر شبستان غفار نے کہا کہ اس کانفرنس کا مقصد مسلمانوں کے عصری تعلیمی مسائل کے علاوہ مسلم تعلیمی اداروں کو اپنے مسائل کے حل کے سلسلہ میں ایک بڑا پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا ۔ انہوں نے بتایا کہ کانفرنس میں ملک کے کونہ کونہ سے چنندہ مسلم تعلیمی اداروں کے ذمہ داروں نے شرکت کی جو اسکی کامیابی واضح دلیل ہے ۔


0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔