.

.
تازہ ترین
کام جاری ہے...

دارالحکومت دہلی جہیزسے ہونے والی اموات میں اوّل نمبرپر

پیر, ستمبر 08, 2014

 تحریر-: اشرف علی بستوی کی ہے ۔۔۔۔۔
دارالحکومت دہلی جو حالیہ کچھ برسوں سے خواتین کے لئے انتہائی غیر محفوظ قرار دیا گیاہے اور ملک بھر میں خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات پیش آنے کے معاملے میں بدنام ہے، اب ایک تازہ رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ یہ شہر جہیز سے ہونے والی اموات کے معاملے میں بھی سرفہرست ہے، نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی تازہ رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ دہلی ملک بھرمیں2013 میں درج جہیز کے مقدمات میں اوّل نمبر پر ہے یہاں گزشتہ برس جہیز کے2879 مقدمات درج کئے گئے، 125 بیٹیوں کی زندگیاں جہیز نہ دینے کی وجہ سے ختم کردی گئیں۔
 رپورٹ کے مطابق بنگلور میں 428مقدمات اور52اموات ہوئی ہیں۔ حیدرآباد میں 1480مقدمات درج کئے گئے جن میں 93 لڑکیوں کو موت کی نیند سلادیاگیا۔ ممبئی میں602مقدمات درج کئے گئے جس میں21عورتوں کو قتل کرنے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی ریاست گجرات میں جہیز کے1756مقدمات درج ہوئے جن میں 20 کی موت ہوئی ہے۔ کولکاتا میں 1005مقدمے درج ہوئے جن میں 15خواتین کی موت کی تصدیق کی گئی ہے اور چنئی میں سب سے کم 221مقدمے درج کئے گئے ہیں جن میں12خواتین کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دہلی میں2013میں جہیز کے مقدمات میں25 فیصد کا اضافہ درج کیاگیا ہے۔ غور طلب ہے کہ یہ تشویش ناک اضافہ دہلی میں 16دسمبر2012 کے جنسی زیادتی کے اس واقعے کے بعد درج کیاگیا ہے جس میں لڑکی کی دردناک موت ہوگئی تھی۔ خیال رہے یہ رپورٹ ملک کے صرف 53شہروں کے اعدادوشمار پر مشتمل ہے۔ دیہی علاقوں اور دیگر شہروں میں درج جہیز کے مقدمات کا احاطہ اِس رپورٹ میں نہیں کیاگیاہے۔ اگر دیہی علاقوں کے اعداد وشمار بھی شامل کرلئے جائیں تو اور بھی خراب صورت حال سامنے آئے گی کیوں کہ دیہی علاقوں میں جہیز سے ہونے والی اموات کے زیادہ تر معاملات درج ہی نہیں ہوتے۔
        اِس رپورٹ میں جاری اعداد وشمار سے معاشرے کی موجودہ صورت حال کی ابتری کااندازہ بخوبی لگایاجاسکتا ہے۔ تمام تر بیانات اور جہیز مخالف مہمات کااثر دور دور تک نظر نہیں آتا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ سخت قوانین اور معاشرے میں بیداری کے باوجود جہیز سے ہونے والی اموات میں اضافہ ہی درج کیاگیا ہے۔ معاشرے کی اصلاح کی کوششیں کیوں رائیگاں جارہی ہیں۔ انہی باتوں کے پیش نظر دہلی کے کچھ درد مند افراد پر مشتمل ایک گروپ نے معاشرے کو جہیز کی لعنت سے پاک کرنے کے لئے عملی اقدامات کی پہل کی ہے اور نئی نسل کو جہیز کی لعنت سے نکالنے کے لئے منصوبہ ترتیب دیا ہے۔ اِس گروپ نے طے کیا ہے کہ اسکولوں میں جاکر بچوں اور اساتذہ میں کام کریں اور اسکولوں میں روٹری کلب، بلڈڈونیشن کلب کی طرز پر، نوڈورری کلب، بنائیں اور نئی نسل سے یہ عہدلیں کہ آنے والے دنوں میں جہیز کے خلاف عملی اقدامات کریں گے۔ خاص طور سے نوجوان نسل کو اس لعنت کے بارے میں بیدار کرنے کی ذمہ داری اِس گروپ نے اٹھا رکھی
 ہے۔ دہلی میں اِس کی شروعات بال بھارتی پبلک اسکول پتیم پورا کی انتظامیہ نے کی ہے۔ بلاشبہ جہیز کی لعنت سے معاشرے کو نجات دلانے کی غرض سے اٹھایا گیا یہ قدم قابل تحسین ہے۔ نوجوان نسل کی ذہن سازی اِس انداز میں کی جانی چاہئے تاکہ بڑے ہونے کے بعد جب وہ شادی کے مرحلے میں داخل ہوں تو وہ خود اِس لعنت کی مخالفت کے لئے خود بخودآگے آئیں۔ اِس طرح کی کوششوں کو مزید منظم کرنے اور مثالی بنانے کی ضرورت ہے۔
 جب جب جہیز سے ہونے والی اموات کے واقعات منظر عام پر آتے ہیں ہر کس و نا کس کے ذہن میں یہ سوال ضرو ر پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ مذہبی و سماجی تنظیموں کی جہیز مخالف مہمات نتیجہ خیز ثابت کیوں نہیں ہو رہی ہیں ؟ اصلاح معاشرہ کی تما تر کوششیں بے سود کیوں ثابت ہو رہی ہیں ؟ معاشرے میں پیدا ہونے والی تعلیمی بیداری کے باوجود اس وبا میں روز بروز اضافہ ہی کیوں درج کیا جا رہا ہے ؟ یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ سماج کا وہ باشعور سمجھا جانے والا طبقہ جو اس طرح کی اصلاحی کو ششوں کے لیے کوشاں نظر آتا ہے اس کی اصل صورت حال کیا ہے ؟سوال یہ بھی ہے کہ کیا عرصہ دراز سے جاری جہیز مخالف کوششوں کے نتیجے میں معاشرے میں ایسا کوئی انسانی گروپ وجود میں آسکا ہے جو یہ دعوی کر سکے کہ اس نے کم از کم اپنے حلقے کو جہیز کی لعنت سے پاک کر لیاہے ۔ نیز جہیز سے ہونے والی اموات اور زیادتی کے واقعات کی تحقیق اور تجزیے سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ اِس طرح کے واقعات میں بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر خواتین ہی ملوث پائی جاتی ہیں۔ گھر میں آنے والی بہو کو دن رات جہیز نہ لانے کا طعنہ دینے والی ساس ہوتی ہے یا پھر اس گھر کی بیٹی ہوتی ہے جو کل کسی دوسرے گھر کی بہو بنے گی حالات کو خراب کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک عورت ہی ایک عورت کی موت کا سبب بنتی ہے لہٰذا اِس پورے معاملے کاتجزیہ کرتے وقت یہ پہلو بھی ملحوظ خاطر رہنا چاہئے اور اصلاح حال کی کوششوں میں خواتین کی حصہ داری متعین کی جائے اور انہیں اس بات کی یاد دہانی کرائی جائے کہ آخر ساس بھی کبھی بہو تھی ۔ ظاہر یہ کام بہت آسان نہیں ہے۔ عملی اقدامات میں آنے والی معاشرے کی بیہودہ روایتیں آڑے آئیں گی ان پر سے گزرنا ہو گا ۔ ہمارے وہ سماجی اور مذہبی قائدین جو جہیز سے پاک معاشرے کی خواہش کرتے ہیں انہیں سب سے پہلے خواپنے بچوں کی شادی بیاہ کو مثا لی ہو گا تبھی معاشرہ اس کا اثر قبول کرے گا ورنہ دہائیوں سے چلی آ رہی یہ کو ششیں صدیوں بعد بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتیں۔اب بڑاسوال یہ ہے کہ کیا ہم عملی اقدامات کے لیے تیار ہیں ؟ اصلاحی گروپوں کو بطور خاص اس کا نوٹس لینا چاہے۔

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔